0

بگڑی ہوی خواتین

بگڑی ہوی خواتین
آوازوں میں سب سے بری، بھیانک اور مکروہ آواز گدھے کی ہے کیوں بھلا کیا کبھی غور کیا ہے آپ نے اس لیے کہ حد سے بڑھی ہوی آواز ہے. کانوں کو چبھتی ہے سماعتوں میں زہر گھولتی ہے. اسی لیے انسانوں کو زندگی کے تمام معاملات میں میانہ روی کا حکم دیا گیا ہے. نہ کنجوسی کرو نہ فضول خرچی
نہ زور سے چلو نہ ہی سستی مارے قدموں سے
دین اور دنیاوی معاملات میں بھی میانہ روی کی تاکید کی گءی ہے.
یہ میانہ روی جس نے اختیار کر لی وہ زندگی کے مزے بھی لے گیا اور آخرت کے بھی. ہم انسان بڑی بڑی بڑھکیں مارتے ہوے، اونگی بونگی ہانکتے ہوے یہ بھول ہی جاتے ہیں کہ ہم اس عارضی سراے میں چند دنوں کے مہمان ہیں اور کچھ فرعون نما ہستیاں تو ایسی واہیات ہیں کہ بغیر کسی لحاظ کے اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہوے چند دنیاوی ڈگریوں کے بل بوتے پہ خواہ مخواہ ہی اصلاح زمانے کی ٹھیکداری کا بیڑا اٹھانے کی دھن میں کچھ مادر پدر آزاد خواتین کو ایسے ایسے گوہر نایاب قسم کے چٹکلے نما زہریلے بھاشن ازبر کروانے اور اپنی ریٹنگ بڑھانے میں یوں بگٹٹ بھاگے جاتے ہیں گویا وہ دنیا میں بھیجے ہی اس مکروہ دھندے کے لیے گیے ہیں اور حیف ایسے نام نہاد راہنماؤں کی پیروی کرنے والے عقل کے اندھوں پر.
عورت کے لفظی معنی ہی چھپی ہوئی چیز کے ہیں اور ہر معاشرے میں مرد اور عورت میں تفریق ہر حال میں موجود ہے بھلے جتنا بھی ترقی یافتہ ملک ہو خواتین جتنی بھی تعلیم یافتہ ہوں جتنے بھی اعلیٰ منصب پہ ہوں انھیں اپنی عزت، اپنے وقار کا خیال خود ہی سے رکھنا پڑتا ہے اور مجھے اپنے گھر کی ایک بزرگ خاتون کی یہ بات بہت بھلی لگتی ہے کہ وہ خواتین کو اپنی عزت کی رکھوالی خود کرنے کا کہتی ہیں.
عورت کی عزت
اے بنت حوا
حوا کی بیٹی
گنواے جو حیا کے جوھر
سارا قصور ہی تیرا….. ہے
باپردہ اور بے پردہ خاتون کے ساتھ شاید یورپی ممالک میں ایک جیسا ہی سلوک ہوتا ہو مگر ہمارے ملک میں تو ان دونوں کیٹگری کی خواتین کے ساتھ مردوں کے سلوک میں زمین آسمان کا فرق موجود ہے. الحمدللہ میری ساری عمر بڑی ہی پر سکون اور حیا کے لبادے میں باعزت گزر گءی اللہ پاک سے دعا ہے کہ دنیا کی تمام خواتین اپنی اپنی حیا کے ہالے میں مضبوط، طاقتور اور سر خرو رہیں.
بات ہو رہی تھی میانہ روی کی تو آج کل کے ماڈرن دور میں چند پڑھی لکھی خواتین پڑھ لکھ کے ہوش و حواس کھو بیٹھی ہیں اور سوشل میڈیا پہ دنیا کی بچیوں، لڑکیوں ارے نہیں نہیں میں غلط کہہ گءی پاکستان کی بچیوں، لڑ کیوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے کسی شیر کی گھن گرج کے ساتھ دھاڑیں مار مار کے ان کے اندر کے حیوان کو جگانے کے جتن میں پوری تندھی سے مصروف کار ہیں. غور فرمائیے پہلے ہی اس صنف نازک کے ہاتھوں خا ندانی نظام کا شیرازہ بکھر کے لیرو لیر ہو چکا ہے فیملی کورٹس کے احاطے broken families کے پور پور زخمی چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کی آہوں سے زخمی ہیں.
ارے کبھی ان معصوم بچوں کے دکھ، درد اور کرب کا اندازہ کیا ہے جن سے یا تو ماں چھوٹ جاتی ہے یا باپ. بچے کو والدین فل پیکج میں چاہیے ہوتے ہیں. مگر نہ جی پہلے تو مدرسے کے مولانا کافی تھے، پھر motivational speakers اور اب یہ سوشل میڈیا کے نکمے ترین عالم جو کبھی کوی فتویٰ داغ دیتے ہیں اور کبھی کوی اور ان کو داد دینے والے میراثی بھی ایک جتھے کی صورت میں بلا سوچے سمجھے ان پہ داد و تحسین کے ڈونگرے برسانا عین سعادت ہی نہیں سنجھتے بلکہ اگر کوئی مرد یا عورت اس نشے میں دھت بکارے نامی بھاشن مارتے ٹبر کو ہلکا سا جگانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ قبیلہ اپنی بازاری زبان میں شرفا کے ساتھ بد تہذیبی اور بد تمیزی پہ اتر آنا اپنا حق سمجھتا ہے ایسا ہی کچھ آج میرے ساتھ بھی ہوا ایک کاو بواے ٹائپ کی خاتون جنہیں عورتوں اور خاص طور پہ بچیوں کے حقوق بحال کرانے کا جنون نہ جینے دیتا ہے اور نہ ہی مرنے اور شاید سانس بھی وہ مشکل ہی سے لے پاتی ہیں عجیب. واہیات چٹکلے چھورٹی رہتی ہیں جنہیں پڑھ کر ان کی ذہنی پسماندگی کا اندازہ اہل علم و دانش کو خوب ہوتا ہو گا مگر جس بے شرمی اور ڈھٹائی سے وہ اپنے موقف پہ اڑ جاتی ہیں میں اس پہ حیران ہوں
ہمیشہ بچیوں کو مردوں کے خلاف کرنے کے چکر میں
ہمیشہ انھیں مردوں سے باغی کرنے کے چکر میں
اللہ جانے محترمہ کن محرومیوں کے ساے میں پروان چڑھی ہیں مردوں کی کس کمینگی اور ظلم و جبر کا شکار رہی ہیں کہ ہمیشہ ان کی توپوں کے گولوں کا رخ بیچارے مرد ہی ہوتے ہیں اور میں بہت حیران ہوں کہ ایک جتھے کا جتھا ہے ذہنی طور پہ پس ماندہ اور جاہل خواتین کا جو دن رات ان کی مدح سرائی میں زمین آسمان کے قلابے ملا ملا کے ہلکان ہوتی رہتی ہیں ارے بی بیو ہوش کے ناخن لو مرد کے بغیر تو عورت کی اوقات ہی نہیں. محرم کے بغیر تو حج عمرے کی اجازت نہیں اور یہ چلی ہیں وراثت میں حصّہ لینے، بچے پیدا نہ کرنے کیوں بھءی کیا بازارو عورتیں ہو ساری کی ساری
مرد باپ کے روپ میں باب حرم
مرد بھای کے روپ میں چھپر چھاوں
مرد بیٹے کے روپ میں مستقل
مرد شوہر کے روپ میں سایبان
اللہ نے اپنے علاوہ صرف شوہر کے سجدے کی اجازت دی یے
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم ایک بد ترین عہد جہالت سے گزر ریے ہیں عورتیں بے شمار جگہوں پہ بری طرح سے مار کھا رہی ہیں مگر یہ بازاری لہجہ اور گدھے جیسی بدسری آواز میں کیا عورتیں اپنے حقوق لے پایں گی کیا یہ بگڑی ہوی مرد نما عورتیں، عورتوں کی فلاح کے لیے کچھ کر پایں گی میرا تو یہ ماننا ہے کہ مردوں جیسے اڑیل گھوڑوں کو پیار محبت کی مہار کی ضرورت ہے اور یہ نام نہاد دانشور خواتین مرد و زن میں پیار محبت کے طریقوں کو پروان چڑھانے کی بجائے خواتین کو مردوں سے بد زن کرنے کا کوئی بھی طریقہ ہاتھ سے جانے نہیں دے رہیں. ذرا غور فرمائیے کیا یہ خود broken families سے ہیں ؟
یہ خوشحال خاندانوں سے اور صرف اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے مغربی معاشرے کی طرح ہماری خواتین کو گمراہ کر کے ہمیں تباہی کے دھانے کء طرف لے جا رہی ہیں.
ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے غور فرمائیے گا.
اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو آمین ثم آمین
ڈاکٹر پونم نورین

یہ خبر شیئر کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں