زی حال مسکین مکن بہ رنجش
بہ حالِ ہِجراں بیچارہ دل ھے۔
“آہ غریب ہائے غریبی”
غُربت کسی کے گھر دستک دیکر نہیں آتی…
آج یہ غریب ھے،کل کوئی اور بھی اس جیسا ہوسکتا ھے، لہٰذا
وقت اور حالات کی قدر کریں۔۔۔
یہ جو غریب اور لاچار لوگ ہوتے ہیں نا،
یہ ہمیں اور آپکو الله کے حضور سربسجود ہونے،الله کا شُکر بجا لانے
اور
ہروقت لو لگائے رکھنے کا درس دیتے ہیں…
غریب کے گھر پیدا ہونے میں ان معصوم بچیوں کا کوئی دوش نہیں…
اِنکی رزق اور پرورش غریب گھرانے میں لکھی ھے اس لیئے یہ معصوم بچیاں بصد احترام وشوق اپنے والدین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں…
ہمیں چاہیئے کہ انہیں دیکھ دھتکارنے کے بجائے پیار سے اپنے پاس بلا کر انکے سر پر ہاتھ رکھیں،
جو کچھ یہ(معصوم بچے) فروخت کرنے کیلیئے پیش کریں،فوراََ خرید لیں،چاھے اسکی آپکو ضرورت ہو یا نہ ہو…
سو دوسو روپے سے آپکا کچھ نہیں بگڑے گا، معصوم بچیوں کی دلجوئی کے ساتھ ساتھ مالی مدد بھی ہوجائے گی…
جس طرح ھم اور آپ شاپنگ مال یا بڑے ہوٹلوں پہ اپنے نام اور شان کیلیئے ہزاروں روپے خرچ کر دیتے ہیں،
اگر انکے جھاڑو وغیرہ خرید کر انکے سر کا بوجھ (کچھ دیر کیلیئے ہی سہی) ہلکا کردیں، تو ان معصوم بچیوں کی خوشی قابلِ دید ہوگی…
ہمارے آپکے اور ان بچوں میں کوئی فرق نہیں،
اگر فرق ھے تو وہ فرق ھے غربت کا…
جیسے آپکے بچے مسکراتے ہیں،انکے چہرے پر بھی وہی مسکراہٹ ھے…
دل کرے تو انکو بھیک نہیں بلکہ ان سے (بِلا ضرورت)خریداری ضرور کرلیا کریں…
کیونکہ یہی بچے اپنے گھروں کے بڑے اور کمانے والے ہوتے ہیں…
سماجی، فلاحی تنظیموں اور انتظامیہ سے گزارش ھے کہ ایسے نادار افراد کی کفالت کیلیئے خصوصی اہتمام کریں…
انکو اپنے ہاں بلوانے کے بجائے انکی دہلیز پر راشن وغیرہ پہنچا دیں…
یہ بھی اسی ملک کے شہری اور تمام سہولیات میں برابر کے شریک ہیں…
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں! ھے کہ نہیں