188

ابراہیم علیہ السلام کی سیرت اور ان کی عظیم قربانی کی یاد میں اہل ایمان اپنی محبت کا ثبوت دینے کے لیے ذوالحجہ کے مقدس مہینہ کے انتظار میں ہیں۔

*💎 سیرت ابراہیم علیہ السلام سے ملنے والا درس 💎*

📕 *وَاذْكُرْ‌ فِي الْكِتَابِ إِبْرَ‌اهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا*

ابراہیم علیہ السلام کی سیرت اور ان کی عظیم قربانی کی یاد میں اہل ایمان اپنی محبت کا ثبوت دینے کے لیے ذوالحجہ کے مقدس مہینہ کے انتظار میں ہیں۔

اپنے جانوروں کے گلے پر چھری چلا کر وہ ذبیح اللہ اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے عظیم رؤیا صادقہ کی یاد میں تازہ کریں گے اور جانور کا گلہ کاٹ کر سنت ابراہیم پر عمل پیرا ہوں گے،

مساجد سے آواز آئے گی تو سیرت ابراہیم ؑکے عنوان سے ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن میں سیرت ابراہیمیؑ کو بیان کرنے والوں کا جوش و خروش دیدنی ہو گا.

*⁉لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیرت ابراہیمؑ صرف ان دس دنوں کے ساتھ خاص ہے ؟*

قبل ازیں یا ما بعد اس کا ذکر کیوں نہیں کیا جاتا حالانکہ حکم الٰہی ہے

📕 *قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَ‌اهِيمَ ،*

ابراہیم علیہ السلام اس مرتبہ پر فائز ہیں تو ہمیں غور و خوض کرنا ہو گا کہ کیا صرف جانور کا گلہ کاٹنا ہی سنت ابراہیم ؑہے یا اس کے علاوہ کوئی اور کام بھی اس سنت میں شامل ہے اللہ سے دعا گو ہیں کہ اللہ رب کائنات اہل ایمان کو ایسی سوچ و فکر سے مالا مال فرمائے جو ہمیں سیرت ابراہیم ؑسے ابتلاء و آزمائش میں ثابت قدمی کی صورت میں ملتی ہیں

*قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَ‌اهِيمَ*

میں جہاں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ قربانی کرنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اسی طرح قربانی کے وقت وہ جذبہ بھی درکار ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جذبات تھے۔

📕 *يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَ‌ىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ‌ مَاذَا تَرَ‌ىٰ*

کہ اللہ کی محبت میں جانور تو کجا اگر حقیقی اولاد کی قربانی بھی دینی پڑے تودریغ نہیں ہو گا۔

💢آ ئیے اسی جذبہ کے تحت چند ایک امور آپ کے گوش گزار کروں کہ سیرت ابراہیم ؑ کا مقصد دین حنیف کی پیروی ہے، سنت ابراہیمی ؑمیں جانور کی قربانی مقصود نہیں حقیقت میں نفسانی خواہش پر چھری چلانا ہے۔

سنت ابراہیم ؑمیں چند ایک اور امور بھی ہمارے سامنے ہیں اور ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ صرف اور صرف جانور ذبح کر کے تم اپنی محبت ثابت نہیں کر سکتے بلکہ ابراہیم علیہ السلام کے جذبات بھی قرآن بیان کرتا ہے۔

📕 *رَّ‌بَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّ‌يَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ‌ ذِي زَرْ‌عٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّ‌مِ رَ‌بَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْ‌زُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَ‌اتِ*

ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو اللہ کے گھربیت اللہ الحرام کے پاس چھوڑا اور قیامت تک آنے والی انسانیت کو اس بات کا درس دیاہے کہ

💯 *اولاد کو دین کی تعلیم سے آراستہ کرنے اور نمازی بنانے کے لیے اپنے گھر میں نہیں بلکہ اللہ کے گھرمیں پہنچانا ہو گا*

اور ان کی حوائج زندگی کے بارے پریشانی ہو تو ہائے وائے سے نہیں بلکہ اللہ پرتوکل کرتے ہوئے اللہ سے دعا کرنی چاہیے ۔

سب سے پہلی دعا جو ابراہیم علیہ السلام نے اولاد کے لیے کی وہ کیا ہے ’

📕 *رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ*

*‘‘ اے اللہ میری دعا یہ ہے کہ میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا دے*

اور اس دعا میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی حقیقی اولاد کے علاوہ ان کی روحانی اور دینی اولاد بھی شامل ہے

دوسری دعا اے اللہ !لوگوں کو ان کی طرف مائل ہونے والا یعنی اپنے گھر بیت اللہ کی طرف رجوع کرنے والا بنا دے ،

اے اللہ میں نے ان کو بے سرو سامان چھوڑا ہے،اے اللہ!تو ان کے کھانے کا بندوبست بھی فرمادے ،

اے اللہ ! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں

📕 *وَارْ‌زُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَ‌اتِ*

،اے اللہ!ان کو کھانے کے لیے پھل عطا فرما،

یہ دعائے ابراہیم ہے جو انہوں نے اپنے اپنی اولاد کے لیے کی تھی در حقیقت وہ دعا انہوں نے ہر اپنے اس ماننے والے کے لیے کی تھی جو ملت ابراہیمی ؑ کا پیرو کار ہے اللہ رب العزت ہر دعا کرنے والے کے خلوص اور اس کی للٰھیت کا لحاظ رکھتا ہے۔

یہ دعا کرنے والاوہ برگزیدہ پیغمبر ؑہے جس کو توحید الٰہی کی وجہ سے آگ میں ڈالاگیا،

تو قرآن نے اس کے بارے ارشاد فرمایا ’’

*📕 وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ فَهُوَ حَسْبُهُ*

ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی ذات پر توکل اور بھروسہ کیا ،
توحید الٰہی پر کسی سے کوئی عہد وپیمان نہیں کیاصرف اللہ کی ذات پر توکل ہے قوم قبیلہ ،اعزہ و اقارب دور دراز سے آنے والے اس بات کے منتظر کھڑے ہیں کہ آگ کی لپٹیں ابراہیم ؑ کو راکھ بنا کر رکھ دے گی لیکن رب کا وعدہ ہے

*وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ فَهُوَ حَسْبُهُ* ،

اللہ رب کائنات نے فرمایا

*يَا نَارُ‌ كُونِي بَرْ‌دًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَ‌اهِيمَ*

یہ ابراہیم ؑکے دل میں توحید کا اخلاص تھا کہ اس نے آگ کے اس آلاؤ سے ان کو بچایا
اور اخلاص کے اس پیکر ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو اس قدر شرف قبولیت سے نوازا کہ ادہر ابراہیم ؑنے جنگل و بیابان میں بسائی اپنی اولاد کے لیے پھولوں کا رزق مانگا،اِدھر اللہ نے دعا کو قبول فرما لیا

اور دوسری طرف ابراہیم علیہ السلام نے اس عالم ویرانی میں حج بیت اللہ کی صدا لگائی تو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی دعا

*فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْ‌زُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَ‌اتِ*

کو بھی قبول فرمایااور اہل ایمان اور ابراہیم علیہ السلام کے پیروکاروں اور ان سے محبت کرنے والوں کودرس دیا،
کہ اگر تم سنت ابراہیمی ؑ کا دعویٰ کرتے ہو تو آؤ سنت ابراہیمی ؑ کو زندہ کروصرف جانور کے گلے پر چھری چلانے سے نہیں بلکہ
اپنے لخت جگر اور اپنی اولاد کو اللہ کے گھر میں پہنچا کر دین کی تعلیم دلواؤ

اور اپنی خواہشات کو چھوڑ کر اطاعت الٰہی میں ہر چیز کو قربان کرو

اگر دعویٰ میں اخلاص ہو تو اللہ رب کائنات ہر چیز کا سبب مہیا فرما دے گا۔

*منقول*

یہ خبر شیئر کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں