223

اب عشق رہا نا بے پرواہی پوچھتے کیا ہو مجھ سے ماہی یہ بازی تو میں کھیل چکی ہوں سارے ہی غم جھیل چکی ہوں جینا کیوں ہے مرنا کیا ہے جی کر آخر کرنا کیا ہے

اب عشق رہا نا بے پرواہی پوچھتے کیا ہو مجھ سے ماہی
یہ بازی تو میں کھیل چکی ہوں سارے ہی غم جھیل چکی ہوں
جینا کیوں ہے مرنا کیا ہے
جی کر آخر کرنا کیا ہے

مجھ کو اب احساس نہیں
سکھ دکھ مجھ کو راس نہیں
جیون کی اٹھائیس بہاریں
دنیا کے قدموں میں واریں
کاش انتیسویں دیکھ نا پاؤں
اس سے پہلے کے مر جاوں

شاید پھر کچھ چین ملے گا
لیکن کیسے چین ملے گا
چین تو میں نے گروی رکھا
تب جا کے ہی عشق تھا چکھا

عشق کو میں نے بادل سمجھا
عشق کو میں نے ساحل سمجھا
عشق ہوا تھی عشق دعا تھی
عشق رزق تھا عشق دعا تھی

کھانا پینا عشق ہی ٹھہرا
کرنا جینا عشق ہی ٹہھرا

عشق تھا میری ہڈیوں کا گودا
عشق تھا بنجرمن کا پودا
عشق ہی عشق تھانام نا تھا دوجا

عشق نے عشق کے بھید بوجا

عشق کا عالم بے پرواہی
بھول گئی مجھے ہستی ماہی

لیکن کیسا عشق تھا میرا
ہر سو ہے تنہائی کا ڈیرا
جس نے مجھ کو گلے لگایا
اس نے ہی پھر تیرا چلایا

سچ پوچھو تو عشق ہے قاتل عشق میں کچھ نہیں ہےحاصل
اس سے ڈر کر سر پٹ بھاگی ایک لہر سی دل میں جاگی

بھاگتے بھاگتے تھک گئی آخر
نکل سکی نا عشق سے باہر

پھر اب ایسے دن ہیں آئے
عشق ،نادلبر من کو بھائے

کیوں اب اس کا پر چار کروں
پھر دل کو کیوں دو چار کروں

کیوں کروں اور کسی اور کی حاظر
عشق ہے دشمن پیاء دل کا شاطر

(پیا سحر مدینہ گجرات)

یہ خبر شیئر کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں