اب عشق رہا نا بے پرواہی پوچھتے کیا ہو مجھ سے ماہی
یہ بازی تو میں کھیل چکی ہوں سارے ہی غم جھیل چکی ہوں
جینا کیوں ہے مرنا کیا ہے
جی کر آخر کرنا کیا ہے
مجھ کو اب احساس نہیں
سکھ دکھ مجھ کو راس نہیں
جیون کی اٹھائیس بہاریں
دنیا کے قدموں میں واریں
کاش انتیسویں دیکھ نا پاؤں
اس سے پہلے کے مر جاوں
شاید پھر کچھ چین ملے گا
لیکن کیسے چین ملے گا
چین تو میں نے گروی رکھا
تب جا کے ہی عشق تھا چکھا
عشق کو میں نے بادل سمجھا
عشق کو میں نے ساحل سمجھا
عشق ہوا تھی عشق دعا تھی
عشق رزق تھا عشق دعا تھی
کھانا پینا عشق ہی ٹھہرا
کرنا جینا عشق ہی ٹہھرا
عشق تھا میری ہڈیوں کا گودا
عشق تھا بنجرمن کا پودا
عشق ہی عشق تھانام نا تھا دوجا
عشق نے عشق کے بھید بوجا
عشق کا عالم بے پرواہی
بھول گئی مجھے ہستی ماہی
لیکن کیسا عشق تھا میرا
ہر سو ہے تنہائی کا ڈیرا
جس نے مجھ کو گلے لگایا
اس نے ہی پھر تیرا چلایا
سچ پوچھو تو عشق ہے قاتل عشق میں کچھ نہیں ہےحاصل
اس سے ڈر کر سر پٹ بھاگی ایک لہر سی دل میں جاگی
بھاگتے بھاگتے تھک گئی آخر
نکل سکی نا عشق سے باہر
پھر اب ایسے دن ہیں آئے
عشق ،نادلبر من کو بھائے
کیوں اب اس کا پر چار کروں
پھر دل کو کیوں دو چار کروں
کیوں کروں اور کسی اور کی حاظر
عشق ہے دشمن پیاء دل کا شاطر
(پیا سحر مدینہ گجرات)