47

Surat No 59 : سورة الحشر – Ayat No 22. 23. 24

Surat No 59 : سورة الحشر – Ayat No 22. 23. 24

وہ 32 اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں 33 ، غائب اور ظاہر ہر چیز کا جاننے والا 34 ، وہی رحمان اور رحیم ہے 35 ۔ وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ وہ بادشاہ 36 ہے نہایت مقدس37 ، سراسر سلامتی ، امن دینے والا 38 ، نگہبان 40 ، سب پر غالب 41 ، اپنا حکم بزورنافذ کرنے والا 42 ، اور بڑا ہی ہو کر 43 رہنے والا ۔ پاک ہے اللہ اس شرک سے جو لوگ کر رہے ہیں 44 ۔ وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے 45 ۔ اس کے لیئے بہترین نام ہیں 46 ۔ ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اس کی تسبیح کر رہی 47 ہے ، اور وہ زبردست اور حکیم 48 ہے ۔ ع

تفسیر۔۔۔۔ تفہیم القرآن

«سورة الْحَشْر» حاشیہ نمبر :32
ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ خدا جس کی طرف سے یہ قرآن تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ، جس نے یہ ذمہ داریاں تم پر ڈالی ہیں ، اور جس کے حضور بالآخر تمہیں جواب دہ ہونا ہے ، وہ کیسا خدا ہے اور کیا اس کی صفات ہیں ۔ اوپر کے مضمون کے بعد متصلاً صفات الہیٰ کا یہ بیان خود بخود انسان کے اندر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ اس کا سابقہ کسی معمولی ہستی سے نہیں ہے بلکہ اس عظیم و جلیل ہستی سے ہے جس کی یہ اور یہ صفات ہیں ۔ اس مقام پر یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ قرآن مجید میں اگرچہ جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی صفات بے نظیر طریقے سے بیان کی گئی ہیں جن سے ذات الٰہی کا نہایت واضح تصور حاصل ہوتا ہے ، لیکن دو مقامات ایسے ہیں جن میں صفات باری تعالیٰ کا جامع ترین بیان پایا جاتا ہے ۔ ایک ، سورہ بقرہ میں آیت الکرسی ( آیت 255 ) ۔ دوسرے ، سورہ حشر کی یہ آیات ۔

«سورة الْحَشْر» حاشیہ نمبر :33
یعنی جس کے سوا کسی کی یہ حیثیت اور مقام اور مرتبہ نہیں ہے کہ اس کی بندگی و پرستش کی جائے ۔ جس کے سوا کوئی خدائی کی صفات و اختیارات رکھتا ہی نہیں کہ اسے معبود ہونے کا حق پہنچتا ہو ۔

«سورة الْحَشْر» حاشیہ نمبر :34
یعنی جو کچھ مخلوقات سے پوشیدہ ہے اس کو بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان پر ظاہر ہے اس سے بھی وہ واقف ہے ۔ اس کے علم سے اس کائنات میں کوئی شے بھی پوشیدہ نہیں ۔ ماضی میں جو کچھ گزر چکا ہے ، حال میں جو کچھ موجود ہے ، اور مستقبل میں جو کچھ ہو گا ، ہر چیز اس کو براہ راست معلوم ہے ۔ کسی ذریعہ علم کا وہ محتاج نہیں ہے ۔

«سورة الْحَشْر» حاشیہ نمبر :35
یعنی وہی ایک ہستی ایسی ہے جس کی رحمت بے پایاں ہے ، تمام کائنات پر وسیع ہے ، اور کائنات کی ہر چیز کو اس کا فیض پہنچتا ہے ۔ سارے جہان میں کوئی دوسرا اس ہمہ گیر اور غیر محدود رحمت کا حامل نہیں ہے ۔ دوسری جس ہستی میں بھی صفت رحم پائی جاتی ہے اس کی رحمت جزوی اور محدود ہے ، اور وہ بھی اس کی ذاتی صفت نہیں ہے بلکہ خالق نے کسی مصلحت اور ضرورت کی خاطر اسے عطا کی ہے ۔ جس مخلوق کے اندر بھی اس نے کسی دوسری مخلوق کے لیے جذبہ رحم پیدا کیا ہے ، اس لیے پیدا کیا ہے کہ ایک مخلوق کو وہ دوسری مخلوق کی پرورش اور خوشحالی کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے ۔ یہ بجائے خود اسی کی رحمت بے پایاں کی دلیل ہے ۔ «سورة الْحَشْر» حاشیہ نمبر :36
اصل میں لفظ «اَلْمَلِکْ» استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل بادشاہ وہی ہے ۔ نیز مطلقاً الملک کا لفظ استعمال کرنے سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ وہ کسی خاص علاقے یا مخصوص مملکت کا نہیں بلکہ سارے جہان کا بادشاہ ہے ۔ پوری کائنات پر اس کی سلطانی و فرمانروائی محیط ہے ۔ ہر چیز کا وہ مالک ہے ۔ ہر شے اس کے تصرف اور اقتدار اور حکم کی تابع ہے ۔ اور اس کی حاکمیت ( Sovereignty ) کو محدود کرنے والی کوئی شے نہیں ہے ۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ کی بادشاہی کے ان سارے پہلوؤں کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے :
«وَلَہ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ کُلٌّ لَّہ قٰنِتُوْنَ ( الروم: 26 )»
زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں اس کے مملوک ہیں ، سب اس کے تابع فرمان ہیں ۔
«یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْض ، ( السجدہ 5 ) ۔»
آسمان سے زمین تک وہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے ۔
«لَہ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِلَی اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ۔ ( الحدید : 5 ) ۔»
زمین اور آسمانوں کی بادشاہی اسی کی ہے اور اللہ ہی کی طرف سارے معاملات رجوع کیے جاتے ہیں ۔
«وَلَمْ یَکُنْ لَّہ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ ( الفرقان : 2 )»
بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے ۔
«بِیَدِہ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْءٍ ( یٰس : 83 ) ۔»
ہر چیز کی سلطانی و فرمانروائی اسی کے ہاتھ میں ہے ۔
«فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ ۔ ( البروج : 16 ) ۔»
جس چیز کا ارادہ کرے اسے کر گزرنے والا ۔
«لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ ( الانبیاء : 23 )»
جو کچھ وہ کرے اس پر وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے ، اور سب جواب دہ ہیں ۔
«وَاللہُ یَحْکُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ ۔ ( الرعد:41 )»
اور اللہ فیصلہ کرتا ہے ، کوئی اس کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے ۔
«وَھُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارَ عَلَیْہِ ۔ ( المؤمنون : 88 ) ۔»
اور وہ پناہ دیتا ہے اور کوئی اس کے مقابلے میں پناہ نہیں دے سکتا ۔
«قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکَ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآءُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیءٍ قَدِیْرٌ ( آل عمران : 26 ) ۔»
کہو ، خدایا ، ملک کے مالک ، تو جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے ۔ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے ۔ بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے یقیناً تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔
ان توضیحات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی حاکمیت کے کسی محدود یا مجازی مفہوم میں نہیں بلکہ اس کے پورے مفہوم میں ، اس کے مکمل تصور کے لحاظ سے حقیقی بادشاہی ہے ۔ بلکہ درحقیقت حاکمیت جس چیز کا نام ہے وہ اگر کہیں پائی جاتی ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں ہی پائی جاتی ہے ۔ اس کے سوا اور جہاں بھی اس کے ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے ، خواہ وہ کسی بادشاہ یا ڈکٹیٹر کی ذات ہو ، یا کوئی طبقہ یا گروہ یا خاندان ہو ، یا کوئی قوم ہو ، اسے فی الواقع کوئی حاکمیت حاصل نہیں ہے ، کیونکہ حاکمیت سرے سے اس حکومت کو کہتے ہی نہیں ہیں جو کسی کا عطیہ ہو ، جو کبھی ملتی ہو اور کبھی سلب ہو جاتی ہو ، جسے کسی دوسری طاقت سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہو ، جس کا قیام و بقاء عارضی و وقتی ہو ، اور جس کے دائرہ اقتدار کو بہت سی دوسری متصادم قوتیں محدود کرتی ہوں ۔
لیکن قرآن مجید صرف یہ کہنے پر اکتفا نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کائنات کا بادشاہ ہے ، بلکہ بعد کے فقروں میں یہ تصریح کرتا ہے کہ وہ ایسا بادشاہ ہے جو قدوس ہے ، سلام ہے ، مومن ہے ، مہیمن ہے ، عزیز ہے ، جبار ہے ، متکبر ہے ، خالق ہے ، باری ہے اور مصور ہے ۔

«سورة الْحَشْر» حاشیہ نمبر :37
اصل میں لفظ قُدُّوس استعمال ہوا ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے ۔ اس کا مادہ قدس ہے ۔ قدس کے معنی ہیں تمام بری صفات سے پاکیزہ اور منزہ ہونا ۔ اور قُدُّوس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس سے بدرجہا بالا و برتر ہے کہ اس کی ذات میں کوئی عیب ، یا نقص ، یا کوئی قبیح صفت پائی جائے ۔ بلکہ وہ ایک پاکیزہ ترین ہستی ہے جس کے بارے میں کسی برائی کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا ۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قدوسیت درحقیقت حاکمیت کے اولین لوازم میں سے ہے ۔ انسان کی عقل اور فطرت یہ ماننے سے انکار کرتی ہے کہ حاکمیت کی حامل کوئی ایسی ہستی ہو جو شریر اور بدخلق اور بدنیت ہو ۔ جس میں قبیح صفات پائی جاتی ہوں ۔ جس کے اقتدار سے اس کے محکوموں کو بھلائی نصیب ہونے کے بجائے برائی کا خطرہ لاحق ہو ۔ اسی بنا پر انسان جہاں بھی حاکمیت کو مرکوز قرار دیتا ہے وہاں قدوسیت نہیں بھی ہوتی تو اسے موجود فرض کر لیتا ہے ، کیونکہ قدوسیت کے بغیر اقتدار مطلق ناقابل تصور ہے ۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا درحقیقت کوئی مقتدر اعلیٰ بھی قدوس نہیں ہے اور نہیں ہو سکتا ۔ شخصی بادشاہی ہو یا جمہور کی حاکمیت ، یا اشتراکی نظام کی فرمانروائی ، یا انسانی حکومت کی کوئی دوسری صورت ، بہرحال اس کے حق میں قدوسیت کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا ۔

«سورة الْحَشْر» حاشیہ نمبر :38
اصل میں لفظ السلام استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں سلامتی ۔ کسی کو سلیم ، یا سالم کہنے کے بجائے سلامتی کہنے سے خود بخود مبالغہ کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے ۔ مثلاً کسی کو حسین کہنے کے بجائے حسن کہا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ سراپا حسن ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو السلام کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سراسر سلامتی ہے ۔ اس کی ذات اس سے بالاتر ہے کہ کوئی آفت ، یا کمزوری یا خامی اس کو لاحق ہو ، یا کبھی اس کے کمال پر زوال آئے ۔

«سورة الْحَشْر» حاشیہ نمبر :39
اصل میں لفظ «اَلْمُؤْمِنُ» استعمال ہوا ہے جس کا مادہ امن ہے ۔ امن کے معنی ہیں خوف سے محفوظ ہونا ۔ اور «مؤْمِن» وہ ہے جو دوسرے کو امن دے ۔ اللہ تعالیٰ کو اس معنی میں مؤمِن کہا گیا ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو امن دینے والا ہے ۔ اس کی خلق اس خوف سے بالکل محفوظ ہے کہ وہ کبھی اس پر ظلم کرے گا ، یا اس کا حق مارے گا ، یا اس کا اجر ضائع کرے گا ، یا اس کے ساتھ اپنے کیے ہوئے وعدوں کی خلاف ورزی کرے گا ۔ پھر چونکہ اس فاعل کا کوئی مفعول بیان نہیں کیا گیا ہے کہ وہ کس کو امن دینے والا ہے ، بلکہ مطلقاً المؤمن کہا گیا ہے ، اس لیے اس سے یہ مفہوم آپ سے آپ نکلتا ہے کہ اس کا امن ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کے لیے ہے ۔

«سورة الْحَشْر» حاشیہ نمبر :40
اصل میں لفظ «اَلْمُھَیْمِنُ» استعمال ہوا ہے جس کے تین معنی ہیں ۔ ایک نگہبانی اور حفاظت کرنے والا ۔ دوسرے ، شاہد ، جو دیکھ رہا ہو کہ کون کیا کرتا ہے ۔ تیسرے ، قائم بامور الخلق ، یعنی جس نے لوگوں کی ضروریات اور حاجات پوری کرنے کا ذمہ اٹھا رکھا ہو ۔ یہاں بھی چونکہ مطلقاً لفظ المہیمن استعمال کیا گیا ہے ، اور اس فاعل کا کوئی مفعول بیان نہیں کیا گیا کہ وہ کس کا نگہبان و محافظ ، کس کا شاہد ، اور کس کی خبر گیری کی ذمہ داری اٹھانے والا ہے ، اس لیے اس اطلاق سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ وہ تمام مخلوقات کی نگہبانی و حفاظت کر رہا ہے ، سب کے اعمال کو دیکھ رہا ہے ، اور کائنات کی ہر مخلوق کی خبر گیری ، اور پرورش ، اور ضروریات کی فراہمی کا اس نے ذمہ اٹھا رکھا ہے ۔

«سورة الْحَشْر» حاشیہ نمبر :41
اصل میں لفظ العزیز استعمال ہوا ہے جس سے مراد ہے ایسی زبردست ہستی جس کے مقابلہ میں کوئی سر نہ اٹھا سکتا ہو ، جس کے فیصلوں کی مزاحمت کرنا کسی کے بس میں نہ ہو ، جس کے آگے سب بے بس اور بے زور ہوں ۔

«سورة الْحَشْر» حاشیہ نمبر :42
اصل میں لفظ الجبار استعمال ہوا ہے جس کا مادہ جبر ہے ۔ جبر کے معنی ہیں کسی شے کو طاقت سے درست کرنا ، کسی چیز کی بزور اصلاح کرنا ۔ اگرچہ عربی زبان میں کبھی جبر محض اصلاح کے لیے بھی بولا جاتا ہے ، اور کبھی صرف زبردستی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے ، لیکن اس کا حقیقی مفہوم اصلاح کے لیے طاقت کا استعمال ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ کو جبار اس معنی میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنی کائنات کا نظم بزور درست رکھنے والا اور اپنے ارادے کو ، جو سراسر حکمت پر مبنی ہوتا ہے ، جبراً نافذ کرنے والا ہے ۔ علاوہ بریں لفظ جبار میں عظمت کا مفہوم بھی شامل ہے ۔ عربی زبان میں کھجور کے اس درخت کو جبار کہتے ہیں جو اتنا بلند و بالا ہو کہ اس کے پھل توڑنا کسی کے لیے آسان نہ ہو ۔ اسی طرح کوئی کام جو بڑا عظیم الشان ہو عمل جبار کہلاتا ہے ۔

«سورة الْحَشْر» حاشیہ نمبر :43
اصل میں لفظ «الْمُتَکَبِّر» استعمال ہوا ہے جس کے دو مفہوم ہیں ۔ ایک وہ جو فی الحقیقت بڑا نہ ہو مگر خواہ مخواہ بڑا بنے ۔ دوسرے وہ جو حقیقت میں بڑا ہو اور بڑا ہی ہو کر رہے ۔ انسان ہو یا شیطان ، یا کوئی اور مخلوق ، چونکہ بڑائی فی الواقع اس کے لیے نہیں ہے ، اس لیے اس کا اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور دوسروں پر اپنی بڑائی جتانا ایک جھوٹا ادعا اور بدترین عیب ہے ۔ اس کے برعکس ، اللہ تعالیٰ حقیقت میں بڑا ہے اور بڑائی فی الواقع اسی کے لیے ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے مقابلے میں حقیر و ذلیل ہے ، اس لیے اس کا بڑا ہونا اور بڑا ہی ہو کر رہنا کوئی ادعا اور تصنع نہیں بلکہ ایک امر واقعی ہے ، ایک بری صفت نہیں بلکہ ایک خوبی ہے جو اس کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی ۔

«سورة الْحَشْر» حاشیہ نمبر :44
یعنی اس کے اقتدار اور اختیارات اور صفات میں ، یا اس کی ذات میں ، جو لوگ بھی کسی مخلوق کو اس کا شریک قرار دے رہے ہیں ، وہ درحقیقت ایک بہت بڑا جھوٹ بول رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ کسی معنی میں بھی کوئی اس کا شریک ہو ۔«سورة الْحَشْر» حاشیہ نمبر :45
یعنی پوری دنیا اور دنیا کی ہر چیز تخلیق کے ابتدائی منصوبے سے لے کر اپنی مخصوص صورت میں وجود پذیر ہونے تک بالکل اسی کی ساختہ پرداختہ ہے ۔ کوئی چیز بھی نہ خود وجود میں آئی ہے ، نہ اتفاقاً پیدا ہو گئی ہے ، نہ اس کی ساخت و پرداخت میں کسی دوسرے کا ذرہ برابر کوئی دخل ہے ۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے فعل تخلیق کو تین الگ مراتب میں بیان کیا گیا ہے جو یکے بعد دیگرے واقع ہوتے ہیں ۔ پہلا مرتبہ «خَلُق» ہے جس کے معنی تقدیر یا منصوبہ سازی کے ہیں ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی انجینئر ایک عمارت بنانے سے پہلے یہ ارادہ کرتا ہے کہ اسے ایسی اور ایسی عمارت فلاں خاص مقصد کے لیے بنانی ہے اور اپنے ذہن میں اس کا نقشہ ( Design ) سوچتا ہے کہ اس مقصد کے لیے زیر تجویز عمارت کی تفصیلی صورت اور مجموعی شکل یہ ہونی چاہیے ۔ دوسرا مرتبہ ہے برء ، جس کے اصل معنی ہیں جدا کرنا ، چاک کرنا ، پھاڑ کر الگ کرنا ۔ خالق کے لیے باری کا لفظ اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے کہ وہ اپنے سوچے ہوئے نقشے کو نافذ کرتا اور اس چیز کو ، جس کا نقشہ اس نے سوچا ہے ، عدم سے نکال کر وجود میں لاتا ہے ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے انجینئر نے عمارت کا جو نقشہ ذہن میں بنایا تھا اس کے مطابق وہ ٹھیک ناپ تول کر کے زمین پر خط کشی کرتا ہے ، پھر بنیادیں کھودتا ہے ، دیواریں اٹھاتا ہے اور تعمیر کے سارے عملی مراحل طے کرتا ہے ۔ تیسرا مرتبہ تصویر ہے جس کے معنی ہیں صورت بنانا ، اور یہاں اس سے مراد ہے ایک شے کو اس کی آخری مکمل صورت میں بنا دینا ۔ ان تینوں مراتب میں اللہ تعالیٰ کے کام اور انسانی کاموں کے درمیان سرے سے کوئی مشابہت نہیں ہے ۔ انسان کا کوئی منصوبہ بھی ایسا نہیں ہے جو سابق نمونوں سے ماخوذ نہ ہو ۔ مگر اللہ تعالیٰ کا ہر منصوبہ بے مثال اور اس کی اپنی ایجاد ہے ۔ انسان جو کچھ بھی بناتا ہے اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ مادوں کو جوڑ جاڑ کر بناتا ہے ۔ وہ کسی چیز کو عدم سے وجود میں نہیں لاتا بلکہ جو کچھ موجود ہے اسے مختلف طریقوں سے ترکیب دیتا ہے ۔ بخلاف اس کے اللہ تعالیٰ تمام اشیاء کو عدم سے وجود میں لایا ہے اور وہ مادہ بھی بجائے خود اس کا پیدا کردہ ہے جس سے اس نے یہ دنیا بنائی ہے ۔ اسی طرح صورت گری کے معاملہ میں بھی انسان موجد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورتوں کا نقال اور بھونڈا نقال ہے ۔ اصل مصور اللہ تعالیٰ ہے جس نے ہر جنس ، ہر نوع ، اور ہر فرد کی صورت لاجواب بنائی ہے اور کبھی ایک صورت کی ہوبہو تکرار نہیں کی ہے ۔

«سورة الْحَشْر» حاشیہ نمبر :46
ناموں سے مراد اسمائے صفات ہیں ۔ اور اس کے لیے بہترین نام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لیے وہ اسمائے صفات موزوں نہیں ہیں جن سے کسی نوعیت کے نقص کا اظہار ہوتا ہو ، بلکہ اس کو ان ناموں سے یاد کرنا چاہیے جو اس کی صفات کمالیہ کا اظہار کرتے ہوں ۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کے یہ اسمائے حسنیٰ بیان کیے گئے ہیں ، اور حدیث میں اس ذات پاک کے 99 نام گنائے گئے ہیں ، جنہیں ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بالتفصیل نقل کیا ہے ۔ قرآن اور حدیث میں اگر آدمی ان اسماء کو بغور پڑھے تو وہ بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ دنیا کی کسی دوسری زبان میں اگر اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا ہو تو کون سے الفاظ اس کے لیے موزوں ہوں گے ۔

«سورة الْحَشْر» حاشیہ نمبر :47
یعنی زبان قال یا زبان حال سے یہ بیان کر رہی ہے کہ اس کا خالق ہر عیب اور نقص اور کمزوری اور غلطی سے پاک ہے ۔

«سورة الْحَشْر» حاشیہ نمبر :48
تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، تفسیر سورہ حدید ، حاشیہ 2 ۔

یہ خبر شیئر کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں