49

Surat No 59 : سورة الحشر – Ayat No 3 . 4. 5. 6

Surat No 59 : سورة الحشر – Ayat No 3 . 4. 5. 6

اگر اللہ نے ان کے حق میں جلا وطنی نہ لکھ دی ہوتی دنیا ہی میں وہ انہیں عذاب دے ڈالتا ، 8 ۔ اور آخرت میں تو ان کے لئے دوزخ کا عذاب ہے ہی ۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا ، اور جو بھی اللہ کا مقابلہ کرے اللہ اس کو سزا دینے میں بہت سخت ہے ۔ تم لوگوں نے کھجوروں کے جو درخت کاٹے یا جن کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا ، یہ سب اللہ ہی کے اذن سے تھا9 ۔ اور ( اللہ نے یہ اذن اس لئے دیا ) تاکہ فاسقوں کو ذلیل و خوار کرے 10 ۔ اور جو مال اللہ نے ان کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول کی طرف پلٹا دئے11 ، وہ ایسے مال نہیں ہیں جن پر تم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑائے ہوں ، بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے ۔ تسلط عطا فرما دیتا ہے ، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے 12 ۔

تفسیر۔۔۔ تفہیم القرآن

«سورة الْحَشْر» حاشیہ نمبر :8
دنیا کے عذاب سے مراد ہے ان کا نام و نشان مٹا دینا ۔ اگر وہ صلح کر کے اپنی جانیں بچانے کے بجائے لڑتے تو ان کا پوری طرح قلع قمع ہو جاتا ۔ ان کے مرد مارے جاتے اور ان کی عورتیں اور ان کے بچے لونڈی غلام بنا لیے جاتے جنہیں فدیہ دے کر چھڑانے والا بھی کوئی نہ ہوتا ۔
«سورة الْحَشْر» حاشیہ نمبر :9
یہ اشارہ ہے اس معاملہ کی طرف کہ مسلمانوں نے جب محاصرہ شروع کیا تو بنی نضیر کی بستی کے اطراف میں جو نخلستان واقع تھے ان کے بہت سے درختوں کو انہوں نے کاٹ ڈالا یا جلا دیا تاکہ محاصرہ بآسانی کیا جا سکے ، اور جو درخت فوجی نقل و حرکت میں حائل نہ تھے ان کو کھڑا رہنے دیا ۔ اس پر مدینہ کے منافقین اور بنی قریظہ اور خود بنی نضیر نے شور مچا دیا کہ محمد ﷺ تو فساد فی الارض سے منع کرتے ہیں ۔ مگر یہ دیکھ لو ، ہرے بھرے پھل دار درخت کاٹے جا رہے ہیں ، یہ آخر فساد فی الارض نہیں تو کیا ہے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ تم لوگوں نے جو درخت کاٹے اور جن کو کھڑا رہنے دیا ، ان میں سے کوئی فعل بھی ناجائز نہیں ہے ، بلکہ دونوں کو اللہ کا اذن حاصل ہے ۔ اس سے یہ شرعی مسئلہ نکلتا ہے کہ جنگی ضروریات کے لیے جو تخریبی کارروائی ناگزیر ہو وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی بلکہ فساد فی الارض یہ ہے کہ کسی فوج پر جنگ کا بھوت سوار ہو جائے اور وہ دشمن کے ملک میں گھس کر کھیت ، مویشی ، باغات ، عمارات ، ہر چیز کو خواہ مخواہ تباہ و برباد کرتی پھرے ۔ اس معاملہ میں عام حکم تو وہی ہے جو حضرت ابوبکر صدیق نے فوجوں کو شام کی طرف روانہ کرتے وقت دیا تھا کہ پھل دار درختوں کو نہ کاٹنا ، فصلوں کو خراب نہ کرنا ، اور بستیوں کو ویران نہ کرنا ۔ یہ قرآن مجید کی اس تعلیم کے عین مطابق تھا کہ اس نے مفسد انسانوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کے اس فعل پر زجر و توبیخ کی ہے کہ ’’ جب وہ اقتدار پا لیتے ہیں تو فصلوں اور نسلوں کو تباہ کرتے پھرتے ہیں ۔‘‘ ( البقرہ ۔ 205 ) ۔ لیکن جنگی ضروریات کے لیے خاص حکم یہ ہے کہ اگر دشمن کے خلاف لڑائی کو کامیاب کرنے کی خاطر کوئی تخریب ناگزیر ہو تو وہ کی جا سکتی ہے ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے یہ وضاحت فرما دی ہے کہ «قطعوا منھا ما کان موضعاً للقتال ،» ’’ مسلمانوں نے بنی نضیر کے درختوں میں سے صرف وہ درخت کاٹے تھے جو جنگ کے مقام پر واقع تھے ‘‘ ( تفسیر نیسابوری ) ۔ فقہائے اسلام میں سے بعض نے معاملہ کے اس پہلو کو نظر انداز کر کے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ بنی نضیر کے درخت کاٹنے کا جواز صرف اسی واقعہ کی حد تک مخصوص تھا ، اس سے یہ عام جواز نہیں نکلتا کہ جب کبھی جنگی ضروریات داعی ہوں ، دشمن کے درختوں کو کاٹا اور جلایا جا سکے ۔ امام اوزاعی ، لیث اور ابوثور اسی طرف گئے ہیں ۔ لیکن جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ اہم جنگی ضروریات کے لیے ایسا کرنا جائز ہے ، البتہ محض تخریب و غارت گری کے لیے یہ فعل جائز نہیں ہے ۔
ایک شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ قرآن مجید کی یہ آیت مسلمانوں کو تو مطمئن کر سکتی تھی ، لیکن جو لوگ قرآن کو کلام اللہ نہیں مانتے تھے انہیں اپنے اعتراض کے جواب میں یہ سن کر کیا اطمینان ہو سکتا تھا کہ یہ دونوں فعل اللہ کے اذن کی بنا پر جائز ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کی یہ آیت مسلمانوں ہی کو مطمئن کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے ، کفار کو مطمئن کرنا سرے سے اس کا مقصود ہی نہیں ہے ۔ چونکہ یہود اور منافقین کے اعتراض کی وجہ سے ، یا بطور خود ، مسلمانوں کے دلوں میں یہ خلش پیدا ہو گئی تھی کہ کہیں ہم فساد فی الارض کے مرتکب تو نہیں ہو گئے ہیں ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو اطمینان دلا دیا کہ محاصرے کی ضرورت کے لیے کچھ درختوں کو کاٹنا ، اور جو درخت محاصرے میں حائل نہ تھے ان کو نہ کاٹنا ، یہ دونوں ہی فعل قانون الٰہی کے مطابق درست تھے ۔
محدثین کی نقل کردہ روایات میں اس امر پر اختلاف ہے کہ آیا ان درختوں کے کاٹنے اور جلانے کا حکم خود رسول اللہ ﷺ نے دیا تھا ، یا مسلمانوں نے بطور خود یہ کام کیا اور بعد میں اس کا شرعی مسئلہ حضور ﷺ سے دریافت کیا ۔ حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت یہ ہے کہ حضور ﷺ نے خود اس کا حکم دیا تھا ( بخاری ، مسلم ، مسند احمد ، ابن جریر ) ۔ یہی یزید بن رومان کی روایت بھی ہے ( ابن جریر ) ۔ بخلاف اس کے مجاہد اور قتادہ کی روایت یہ ہے کہ مسلمانوں نے بطور خود یہ درخت کاٹے تھے ، پھر ان میں اس مسئلے پر اختلاف ہوا کہ یہ کام کرنا چاہیے یا نہیں ۔ بعض اس کے جواز کے قائل ہوئے اور بعض نے اس سے منع کیا ۔ آخرکار اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر دونوں کے فعل کی تصویب کر دی ( ابن جریر ) ۔ اسی کی تائید حضرت عبداللہ بن عباس کی یہ روایت کرتی ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں اس بات پر خلش پیدا ہوئی کہ ہم میں سے بعض نے درخت کاٹے ہیں اور بعض نے نہیں کاٹے ، اب رسول اللہ ﷺ سے پوچھنا چاہیے کہ ہم میں سے کس کا فعل اجر کا مستحق ہے اور کس کے فعل پر مواخذہ ہو گا ( نسائی ) ۔ فقہاء میں سے جن لوگوں نے پہلی روایت کو ترجیح دی ہے وہ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا اجتہاد تھا جس کی توثیق بعد میں اللہ تعالیٰ نے وحی جلی سے فرمائی اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جن معاملات میں اللہ تعالیٰ کا حکم موجود نہ ہوتا تھا ۔ ان میں حضور ﷺ اجتہاد پر عمل فرماتے تھے ۔ دوسری طرف جن فقہاء نے دوسری روایت کو ترجیح دی ہے وہ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے دو گروہوں نے اپنے اپنے اجتہاد سے دو مختلف رائیں اختیار کی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے دونوں کی توثیق فرما دی ، لہذا اگر نیک نیتی کے ساتھ اجتہاد کر کے اہل علم مختلف رائیں قائم کریں تو باوجود اس کے کہ ان کی آراء ایک دوسرے سے مختلف ہوں گی ، مگر اللہ کی شریعت میں وہ سب حق پر ہوں گے ۔

«سورة الْحَشْر» حاشیہ نمبر :10
یعنی اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ ان درختوں کو کاٹنے سے بھی ان کی ذلت و خواری ہو اور نہ کاٹنے سے بھی ۔ کاٹنے میں ان کی ذلت و خواری کا پہلو یہ تھا کہ جو باغ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لگائے تھے اور جن باغوں کے وہ مدتہائے دراز سے مالک چلے آ رہے تھے ، ان کے درخت ان کی آنکھوں کے سامنے کاٹے جا رہے تھے اور وہ کاٹنے والوں کو کسی طرح نہ روک سکتے تھے ۔ ایک معمولی کسان اور باغبان بھی اپنے کھیت یا باغ میں کسی دوسرے کے تصرف کو برداشت نہیں کر سکتا ۔ اگر اس کے سامنے اس کا کھیت یا اس کا باغ کوئی برباد کر رہا ہو تو وہ اس پر کٹ مرے گا ۔ اور اگر وہ اپنی جائیداد میں دوسرے کی دست درازی نہ روک سکے تو یہ اس کی انتہائی ذلت اور کمزوری کی علامت ہو گی ۔ لیکن یہاں ایک پورا قبیلہ ، جو صدیوں سے بڑے دھڑلے کے ساتھ اس جگہ آباد تھا ، بے بسی کے ساتھ یہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے ہمسائے اس کے باغوں پر چڑھ آئے ہیں اور اس کے درختوں کو برباد کر رہے ہیں ، مگر وہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا ۔ اس کے بعد اگر وہ مدینے میں رہ بھی جاتے تو ان کی کوئی آبرو باقی نہ رہتی ۔ رہا درختوں کو نہ کاٹنے میں ذلت کا پہلو تو وہ یہ تھا کہ جب وہ مدینہ سے نکلے تو ان کی آنکھیں یہ دیکھ رہی تھیں کہ کل تک جو ہرے بھرے باغ ان کی ملکیت تھے وہ آج مسلمانوں کے قبضے میں جا رہے ہیں ۔ ان کا بس چلتا تو وہ ان کو پوری طرح اجاڑ کر جاتے اور ایک سالم درخت بھی مسلمانوں کے قبضے میں نہ جانے دیتے ۔ مگر بے بسی کے ساتھ وہ سب کچھ جوں کا توں چھوڑ کر باحسرت و یاس نکل گئے ۔«سورة الْحَشْر» حاشیہ نمبر :11
اب ان جائیدادوں اور املاک کا ذکر ہو رہا ہے جو پہلے بنی نضیر کی ملک تھیں اور ان کی جلا وطنی کے بعد اسلامی حکومت کے قبضے میں آئیں ۔ ان کے متعلق یہاں سے آیت 10 تک اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ان کا انتظام کس طرح کیا جائے ۔ چونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک علاقہ فتح ہو کر اسلامی مقبوضات میں شامل ہوا ، اور آگے بہت سے علاقے فتح ہونے والے تھے ، اس لیے فتوحات کے آغاز ہی میں اراضی مفتوحہ کا قانون بیان فرما دیا گیا ۔ اس جگہ قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے : «مَا اَفَآءَ اللہُ عَلیٰ رَسُوْلِہ مِنْھُمْ» ( جو کچھ پلٹا دیا ان سے اللہ نے اپنے رسول کی طرف ) کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ ان الفاظ سے خود بخود یہ معنی نکلتے ہیں کہ یہ زمین اور وہ ساری چیزیں جو یہاں پائی جاتی ہیں ، دراصل ان لوگوں کا حق نہیں ہیں جو اللہ جل شانہ کے باغی ہیں ۔ وہ اگر ان پر قابض و متصرف ہیں تو یہ حقیقت میں اس طرح کا قبضہ و تصرف ہے جیسے کوئی خائن ملازم اپنے آقا کا مال دبا بیٹھے ۔ ان تمام اموال کا اصل حق یہ ہے کہ یہ ان کے حقیقی مالک ، اللہ رب العالمین کی اطاعت میں اس کی مرضی کے مطابق استعمال کیے جائیں ، اور ان کا یہ استعمال صرف مومنین صالحین ہی کر سکتے ہیں ۔ اس لیے جو اموال بھی ایک جائز و برحق جنگ کے نتیجے میں کفار کے قبضے سے نکل کر اہل ایمان کے قبضے میں آئیں ان کی حقیقی حیثیت یہ ہے کہ ان کا مالک انہیں اپنے خائن ملازموں کے قبضے سے نکال کر اپنے فرمانبردار ملازموں کی طرف پلٹا لایا ہے ۔ اسی لیے ان املاک کو اسلامی قانون کی اصطلاح میں فے ( پلٹا کر لائے ہوئے اموال ) قرار دیا گیا ہے ۔

«سورة الْحَشْر» حاشیہ نمبر :12
یعنی ان اموال کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ جو فوج میدان جنگ میں دشمن سے نبرد آزما ہوئی ہے اس نے لڑ کر ان کو جیتا ہو اور اس بنا پر اس فوج کا یہ حق ہو کہ یہ اموال اس میں تقسیم کر دیے جائیں ، بلکہ ان کی اصل نوعیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنے رسولوں کو ، اور اس نظام کو جس کی نمائندگی یہ رسول کرتے ہیں ، ان پر غلبہ عطا کر دیا ہے ۔ بالفاظ دیگر ان کا مسلمانوں کے قبضے میں آنا براہ راست لڑنے والی فوج کے زور بازو کا نتیجہ نہیں ہے ، بلکہ یہ اس مجموعی قوت کا نتیجہ ہے جو اللہ نے اپنے رسول اور اس کی امت اور اس کے قائم کردہ نظام کو عطا فرمائی ہے ۔ اس لیے یہ اموال مال غنیمت سے بالکل مختلف حیثیت رکھتے ہیں اور لڑنے والی فوج کا یہ حق نہیں ہے کہ غنیمت کی طرح ان کو بھی اس میں تقسیم کر دیا جائے ۔
اس طرح شریعت میں غنیمت اور فے کا حکم الگ الگ کر دیا گیا ہے ۔ غنیمت کا حکم سورہ انفال آیت 41 میں ارشاد ہوا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اس کے پانچ حصے کیے جائیں ، چار حصے لڑنے والی فوج میں تقسیم کر دیے جائیں ، اور ایک حصہ بیت المال میں داخل کر کے ان مصارف میں صرف کیا جائے جو اس آیت میں بیان کیے گئے ہیں ۔ اور فے کا حکم یہ ہے کہ اسے فوج میں تقسیم نہ کیا جائے ، بلکہ وہ پوری کی پوری ان مصارف کے لیے مخصوص کر دی جائے جو آگے کی آیات میں بیان ہو رہے ہیں ۔ ان دونوں قسم کے اموال میں فرق «فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّلَا رِکَابِ» ( تم نے اس پر اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ہیں ) کے الفاظ سے ظاہر کیا گیا ہے ۔ گھوڑے اور اونٹ دوڑانے سے مراد ہے جنگی کارروائی ( Warlike operations ) لہذا جو مال براہ راست اس کارروائی سے ہاتھ آئے ہوں وہ غنیمت ہیں ۔ اور جن اموال کے حصول کا اصل سبب یہ کارروائی نہ ہو وہ سب فے ہیں ۔
یہ مجمل فرق جو غنیمت اور فے کے درمیان اس آیت میں بیان کیا گیا ہے ، اس کو اور زیادہ کھول کر فقہائے اسلام نے اس طرح بیان کیا ہے کہ غنیمت صرف وہ اموال منقولہ ہیں جو جنگی کارروائیوں کے دوران میں دشمن کے لشکروں سے حاصل ہوں ۔ ان کے ماسوا دشمن ملک کی زمینیں ، مکانات اور دوسرے اموال منقولہ و غیر منقولہ غنیمت کی تعریف سے خارج ہیں ۔ اس تشریح کا ماخذ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ خط ہے جو انہوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو فتح عراق کے بعد لکھا تھا ۔ اس میں وہ فرماتے ہیں کہ : «فانضر ما اجلبوا بہ علیک فی العسکر من کراءٍ او مالٍ فاقسمہ بین من حضر من المسلمین و اترک الاَرَضِین والانھار لعُمّالھا لیکون ذٰلک فی اعطیات المسلمین ۔» ’’ جو مال متاع فوج کے لوگ تمہارے لشکر میں سمیٹ لائے ہیں اس کو ان مسلمانوں میں تقسیم کر دو جو جنگ میں شریک تھے اور زمینیں اور نہریں ان لوگوں کے پاس چھوڑ دو جو ان پر کام کرتے ہیں تاکہ ان کی آمدنی مسلمانوں کی تنخواہوں کے کام آئے ‘‘ ( کتاب الخراج لابی یوسف صفحہ 24 ۔ کتاب الاموال لابی عبید صفحہ 59 ۔ کتاب الخراج لیحیی بن آدم ، صفحات 27 ۔ 28 ۔ 148 ) اسی بنیاد پر حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ ’’ جو کچھ دشمن کے کیمپ سے ہاتھ آئے وہ ان کا حق ہے جنہوں نے اس پر فتح پائی اور زمین مسلمانوں کے لیے ہے ‘‘ ( یحیی بن آدم ، صفحہ 27 ) ۔ اور امام ابویوسف فرماتے ہیں کہ ’’ جو کچھ دشمن کے لشکروں سے مسلمانوں کے ہاتھ آئے اور جو متاع اور اسلحہ اور جانور وہ اپنے کیمپ میں سمیٹ لائیں وہ غنیمت ہے اور اسی میں سے پانچواں حصہ نکال کر باقی چار حصے فوج میں تقسیم کیے جائیں گے ‘‘ ( کتاب الخراج ، صفحہ 18 ) ۔ یہی رائے یحیی بن آدم کی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب الخراج میں بیان کی ہے ( صفحہ 27 ) ۔ اس سے بھی زیادہ جو چیز غنیمت اور فے کے فرق کو واضح کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جنگ نہاوند کے بعد جب مال غنیمت تقسیم ہو چکا تھا اور مفتوحہ علاقہ اسلامی حکومت میں داخل ہو گیا تھا ، ایک صاحب ، سائب بن اقرع کو قلعہ میں جواہر کی دو تھیلیاں ملیں ۔ ان کے دل میں یہ الجھن پیدا ہوئی کہ آیا یہ مال غنیمت ہے جسے فوج میں تقسیم کیا جائے ، یا اس کا شمار اب فے میں ہے جسے بیت المال میں داخل ہونا چاہیے ؟ آخرکار انہوں نے مدینہ حاضر ہو کر معاملہ حضرت عمر ؓ کے سامنے پیش کیا اور انہوں نے فیصلہ فرمایا کہ اسے فروخت کر کے اس کی قیمت بیت المال میں داخل کر دی جائے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ غنیمت صرف وہ اموال منقولہ ہیں جو دوران جنگ میں فوج کے ہاتھ آئیں ۔ جنگ ختم ہونے کے بعد اموال غیر منقولہ کی طرح اموال منقولہ بھی فے کے حکم میں داخل ہو جاتے ہیں ۔ امام ابوعبید اس واقعہ کو نقل کر کے لکھتے ہیں : «مانیل من اھل الشرک عَنْوۃً قسر او الحرب قائمۃ فھو الغنیمۃ ، وما نیل منھم بعد ما تضع الحرب اوزارھا و تصیر الدار دارالاسلام فھو فیءُ یکون للناس عامّا ولا خمس فیہ ۔» ’’ جو مال دشمن سے بزور ہاتھ لگے ، جبکہ ابھی جنگ ہو رہی ہو ، وہ غنیمت ہے ، اور جنگ ختم ہونے کے بعد جب ملک دارالاسلام بن گیا ہو ، اس وقت جو مال ہاتھ لگے وہ فے ہے جسے عام باشندگان دارالاسلام کے لیے وقف ہونا چاہیے ۔ اس میں خمس نہیں ہے ۔‘‘ ( کتاب الاموال ، صفحہ 254 ) ۔
غنیمت کو اس طرح محدود کرنے کے بعد باقی جو اموال و املاک اور اراضی کفار سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہوں وہ دو بڑی اقسام پر تقسیم کیے جا سکتے ہیں ۔ ایک وہ جو لڑ کر فتح کیے جائیں ، جن کو اسلامی فقہ کی زبان میں «حَنْوَۃً فتح» ہونے والے ممالک کہا جاتا ہے ۔ دوسرے وہ جو صلح کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاتھ آئیں ، خواہ وہ صلح اپنی جگہ پر مسلمانوں کی فوجی طاقت کے دباؤ یا رعب اور ہیبت ہی کی وجہ سے ہوئی ہو ۔ اور اسی قسم میں وہ سب اموال بھی آ جاتے ہیں جو «عَنْوَۃً فتح» ہونے کے سوا کسی دوسری صورت سے مسلمانوں کے قبضے میں آئیں ۔ فقہائے اسلام کے درمیان جو کچھ بحثیں پیدا ہوئی ہیں وہ صرف پہلی قسم کے اموال کے بارے میں پیدا ہوئی ہیں کہ ان کی ٹھیک ٹھیک شرعی حیثیت کیا ہے کیونکہ وہ «فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لا رِکابٍ» کی تعریف میں نہیں آتے ۔ رہے دوسری قسم کے اموال ، تو ان کے بارے میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ وہ فے ہیں ، کیونکہ ان کا حکم صاف صاف قرآن مجید میں بیان کر دیا گیا ہے ۔ آگے چل کر ہم قسم اول کے اموال کی شرعی حیثیت پر تفصیلی کلام کریں گے ۔

یہ خبر شیئر کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں