0

آج دن دو بج کر اٹھارہ منٹ پر چینی راکٹ آٹھ لاکھ کلو وزنی چینگ 6 نامی خلائی مشن لے کر چاند کی جانب بڑھنا شروع ہوگا۔ یہ مشن چاند کے جنوبی حصے میں نہ صرف لینڈ کرے گا بلکہ وہاں

آج دن دو بج کر اٹھارہ منٹ پر چینی راکٹ آٹھ لاکھ کلو وزنی چینگ 6 نامی خلائی مشن لے کر چاند کی جانب بڑھنا شروع ہوگا۔ یہ مشن چاند کے جنوبی حصے میں نہ صرف لینڈ کرے گا بلکہ وہاں سے کچھ سیمپل کولیکٹ کرکے زمین پر بھی لوٹے گا۔ چاند کے جنوبی قطب کے آس پاس مستقبل میں انسانی کالونیاں بنائی جائیں گیں جس وجہ سے اس مشن سے ملنے والا ڈیٹا کافی اہم ہوگا۔ سن 2018ء میں چین نے مشن ترتیب دیتے ہوئے کچھ ممالک کو آفر کی تھی کہ اگر وہ چاہیں تو دس کلو تک کے اپنے سائنسی آلات مفت میں اس مشن کے ساتھ بھیج سکتے ہیں۔ اس آفر کا فرانس، اٹلی، سویڈن اور پاکستان نے بروقت جواب دیا اور یہ آلات اب اس مشن کا حصہ ہونگے۔ پاکستان کی “آئی کیوب کیو” سیٹلائیٹ بھی ان میں سے ایک ہے، جس کا وزن آٹھ کلو ہے۔ اس کے نام میں “آئی کیوب” سیٹلائیٹ کی قسم ہے جبکہ “کیو” کا مطلب “قمر” ہے۔ یاد رہے کہ آئی کیوب سیٹلائیٹس کی انتہائی چھوٹی قسم ہوتی ہے، جن کا سائز شوز کے ڈبے جتنا ہوتا ہے، اس پر کیمروں سمیت مختلف سینسرز لگے ہوتے ہیں جو رئیل ٹائم ڈیٹا بھیجتے رہتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسی ننھی سیٹلائیٹس یونیورسٹی کے طلباء عموماً اپنے پراجیکٹس میں ڈیزائن کرتے رہتے ہیں۔ کچھ دنوں تک چاند کے مدار میں پہنچ کر جب چینگ 6 کی خلائی گاڑی چاند پر لینڈ کرنے کی کوشش کرے گی تو اس دوران زمین سے مسلسل رابطہ قائم رکھوانے کے لئے ایک چینی سیٹلائیٹ (آربٹر) چاند کے مدار میں موجود رہے گا۔ “آئی کیوب کیو” کو بھی اسی آربٹر سے الگ کرکے چاند کے مدار میں چھوڑا جائے گا جہاں یہ نوے دنوں تک ایکٹو رہے گا، اس سیٹلائیٹ کو اسلام آباد میں موجود سپیس انسٹیٹیوٹ کے کنٹرول سینٹر سے کنٹرول کیا جارہا ہوگا۔ یہ سیٹلائیٹ نہ صرف چاند کی سطح کی تصاویر لے گی بلکہ چاند کے انتہائی لطیف مقناطیسی میدان کو ماپنے کی بھی کوشش کرے گی۔ یہ تفصیلات تو اس سارے معاملے کا سائنسی احاطہ کرتی تھیں۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں اس پر رونا پیٹنا چاہیے یا خوش ہونا چاہیے؟ اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ مہذب دنیا ایسے معاملات پر کیسے ریکٹ کرتی ہے؟ کیا فرانس، سویڈن اور اٹلی کی عوام بھی اپنے آلات چینی مشن کے ذریعے بھیجے جانے پر ماتم کررہے ہیں؟ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم من حیث القوم ذہنی طور پر اتنے مفلوج اور کنفیوز ہوچکے ہیں کہ کسی بھی موقع کو “سیلیبریٹ” کرنا حرام سمجھتے ہیں۔ مثلاً حالیہ معاملے پر ہی جہاں کچھ سائنسی و سیاسی لکھاری سپارکو کے عہد رفتہ کے قصے سنا کر قوم کو باور کروا رہے ہیں کہ یہ ننھی سیٹلائیٹس تو چین کے ذریعے بھیجنا ہماری توہین ہے تو کچھ دانشور حضرات غریب کا بھوک سے مرنے کا رونا رو رہے ہیں، یہ جانے بغیر کہ یہ سیٹلائیٹ صرف تیس لاکھ روپے میں بنائی گئی ہے اور بغیر کسی اضافی خرچے کے چینی مشن کا حصہ بن رہی ہے، خلائی مشن کے دوران ایک ایک گرام کو سوچ سمجھ کر مشن کا حصہ بنایا جارہا ہوتا ہے کیونکہ اس سے مشن کے اخراجات کافی بڑھ جاتے ہیں، اس کے باوجود چین کی جانب سے دیگر ممالک کے سائنسی آلات مفت میں لے جانا بہت احسن اقدام ہے جس کی پذیرائی بہرحال کرنی چاہیے۔ اس پر مزید افسوسناک عمل یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سیاست اتنی رچ بس چکی ہے کہ اس سے نہ ہماری نجی محفلیں محفوظ ہیں نہ ہی سائنسی ڈسکشنز۔ سپارکو یقیناً ماضی میں بہترین سپیس ایجنسی رہی ہے اور اس کے بعد یہ کچھ غلط ہاتھوں میں جاکر عبرت کا نشان بھی بنی ہے لیکن کیا اس کو دوبارہ ٹریک پر لانے کے لئے اگر کوئی کوشش کی گئی ہے تو اس کی ایسی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے؟ لہٰذا اس معاملے پر جو کوئی بھی آپ کو ملک و قوم کا غم لیے روتا دکھائی دے تو اس کو توجہ دینے کی بجائے ہنس کر آگے بڑھ جائیں۔ یہ وقت ان باتوں کا ہرگز نہیں ہے، موجودہ موقع کو انجوائے کریں، تنقید کے لئے آگے بہت وقت پڑا ہوا ہے۔ اس وقت بھی وہی پرانی گھسی پیٹی باتیں دہرا دہرا کر سر پیٹنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ بلکہ ہمیں تو بطور سائنسی طالبعلم خوش ہونا چاہیے کہ پاکستان فلکیاتی میدان عمل میں کچھ تو آگے بڑھا۔

یہ خبر شیئر کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں