Amir Muhammad Khan
سر پر اولے پڑنے کا خطرہ اور نیب کو لگام
Jan 01, 2020
شیئر کریں:
Google+ Whatsapp Share
سر پر اولے پڑنے کا خطرہ اور نیب کو لگام
کھلنڈرے لوگوںکا یہ کہنا ہے کہ اب پاکستان میں نیب کے نئے ترمیم شدہ قانون کے مطابق پانچ کروڑ روپیہ تک کی کرپشن پر کوئی کاروائی نہیں ہوگی۔ یہ تو ایک مذاق لگتا ہے مگر دیکھا جائے تو نیب کیا کررہی تھی فی الحال تو تمام تر غصہ صرف حزب اختلاف پر اتر رہا تھا۔ پرویز مشرف کو تو کچھ نہیں کہہ سکتے وہ ایک آمر تھا ، مگر بعد میں سیاسی حکومتیں بھی نیب کی آبیاری کرتی رہیں ، آج موجودہ حکومت نے اسے لگام دینے کی کوشش کی ہے تو آئندہ کچھ دنوں میں واقعی سب ایک پیج پر نظر آئینگے۔جب بھی نیب کے سربراہ نے چادر سے زیادہ پیر پھیلانے اور اپنی ذمہ داریوںکو ایمانداری سے ادا کرنے کا اشارہ دیا تو کیا کیا جائے انسانی خواہشات کا کہ بلیک میلنگ کے ذرائع استعمال ہونے لگتے ہیں ۔حکومت کی جانب سے نیب کے پر کاٹنے کی خواہشات کا اظہار گزشتہ حکومت بھی کرتی رہی۔ کیونکہ اس دھوپ کی شعائیں سر پر آتی ہیں تو سب ہی قانون کو اپنی مرضی کا بنانا کی کوشش کرتے ہیں ، گزشتہ ڈیڑھ سال میں موجودہ حکومت کے کرپشن کے خلاف اقدامات یا نعروں سے تمام نوکر شاہی بھی کام چھوڑ بیٹھی تھی کہ ایک دن تو ریٹائرمنٹ ہوگی یا سر سے حکومتی آشیر باد ہٹی تو جیل اور مقدمات کا سامنا ہو گا۔ نیب پر اعتراضات کی ایک وجہ وہ سرمایہ کار جنکی ایک بڑی تعداد حکومت اور وزارتوںمیں ہے انکا بھی شور تھا ،جبکہ عوام سے وابستہ یہ بات ہے کہ معیشت کا پہیہ رک گیا تھا۔ چونکہ جو ایماندرای سے اس ملک میںکاروبار کررہے ہیں وہ کیوںاس جھنجٹ میں پڑیں ؟؟ معیشت کو بھی چند ٹیکس چوروں ، کرپشن کے دل دادہ لوگوں سے شدید نقصان ہورہا تھا ۔ مجوزہ نیب آرڈیننس کے مطابق اینٹی گرافٹ واچ ڈاگ کو اب سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی کی اجازت نہیں دی جائے گی اور عدالت کے حکم کے بغیر بیورو سرکاری اہلکاروں کی جائیداد پر قبضہ نہیں کرے گا۔اگر احتساب نگاری تین ماہ کے اندر کسی ملزم کے خلاف تفتیش مکمل نہیں کرسکتی ہے تو ملزم ضمانت کا حقدار ہوگا۔ اس کے علاوہ، نیب اب صرف 500 ملین روپے اور اس سے زیادہ کی بدعنوانی کے معاملات میں کارروائی کر سکے گا۔ٹیکس، اسٹاک ایکسچینج اور آئی پی او سے متعلق معاملات پر اینٹی گرافٹ ایجنسی کے دائرہ اختیار کو کم کردیا گیا ہے۔ فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو ایسے تمام معاملات پر کام کرنے کا ذمہ سونپا جائے گا۔ دنیا کی کوئی معیشت اس وقت تک مضبوط نہیں ہو سکتی جب تک اسے مقامی بنیادیں میسر نہ ہوں، حالات اس لئے بھی نہ سدھر سکے کہ حکومتی زعمانے بیک وقت کئی محاذ کھول لئے، نیب کے چند اقدامات ایسے تھے کہ صرف اپوزیشن،دیگر ادارے اور حکومت تو کجا عدلیہ نے بھی ان سے بیزاری کا اظہار کیا، کاروبار حکومت کی ذمہ دار بیوروکریسی نے فرائض کی ادائیگی سے گریز پائی اختیار کر لی اور کاروباری افراد نے بھی ہاتھ کھینچ لیا، اُس کے منفی نتائج سامنے آئے۔ تاجر برادری نے ان حالات میں وزیراعظم اور آرمی چیف سے ملاقات کرکے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ حکومت نے بھی حالات کی نزاکت کا ادراک کیا اور ضد کے بجائے نیب قوانین پر نظرثانی کا احسن فیصلہ کیا، جو اب نیب ترمیمی آرڈیننس 2019کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا اہم اور خوش آئند فیصلہ ہے۔ کسی بھی ملک میں کاروباری و اقتصادی سرگرمیاں ماند پڑ جائیں تو معیشت کمزور ہو جاتی ہے اور یہی وہ عوامل تھے جن کے باعث معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے حکومت کی شبانہ روز کاوشیں جلد ثمربار نہ ہو پائیں۔ تاجر برادری کو نیب کے خوف سے آزادی دلانا احسن امر ہے لیکن یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ دیگر محکمے بھی کاروبار دوست ماحول پیدا کریں، نیب اگر پبلک آفس ہولڈرز اور عوامی عہدوں پر کام کرنے والوں کیلئے ہے تو خیال رہے کہ ملکی امور چلانے کی ذمہ دار بیوروکریسی بھی فیصلے کرتے ہوئے خوف یا ہچکچاہٹ کا شکار نہ ہوں۔ خود وزیراعظم بیوروکریسی کا خوف دور کرنے کیلئے حکام سے ملاقات کر چکے ہیں، اس کے باوجود حالات کو مکمل سازگار نہیں کہا جا سکتا۔ کوئی شک نہیں کہ قانون کی بالادستی یقینی بنانا بہرصورت لازم ہے، تاہم ضروری ہے کہ پوری تفتیش کے بعد مع ثبوتوں کے ہی کسی پر گرفت کی جائے۔ امید ہے کہ حکومت نیب ترمیمی آرڈیننس 2019کے بعد حالات بہتری کی طرف آئیں گے۔کرپشن کے خلاف مہم پر کسی محب وطن کو اعتراض نہیں ہوسکتا مگر سیاسی وابستگیوں کی بناء پر PICK AND CHOSE کی سابقہ پالیساں ہی نقصان اور بے اعتباری کا سبب بنتی ہیں۔
شیئر کریں:
Google+ Whatsapp Share