0

اونچے محلوں کے خواب دیکھوں گا (پروفیسر ڈاکٹر رؤف امیر) تحریر:عفت رؤف

اونچے محلوں کے خواب دیکھوں گا (پروفیسر ڈاکٹر رؤف امیر)

تحریر:عفت رؤف

خاک نشیں سے مسند نشیں ہونے تک کا سفر نہایت کٹھن ہے لیکن خواب دیکھنے سے جہد مسلسل تک ثابت قدمی ہی انسان کو منزل مقصود تک پہنچاتی ہے
ضلع اٹک کے گاؤں امیر خان کے عبد الرؤف سے پروفیسر ڈاکٹر رؤف امیر بننے تک کا سفر بھی کچھ ایسا ہی ہے امیر خان کے قطب شاہی اعوان گھرانے کے غریب لیکن معتبر انسان میاں احمد کے ہونہار فرزند عبد الرؤف والدین کی سالہا سال دعاؤں کا ثمر تھے انھوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو نعمت خداوندی سمجھ کر ایسی تراش خراش کی کہ وہ زمانے بھر میں نامور ٹھہرا والد محترم محنت شاقہ کرتے تو والدہ کے ہاتھ دستکاریوں کا ایندھن بنتے ،ماں باپ نے اپنے لعل کو کامیاب انسان بنانے کے لیے ہزار جتن کیے،رزق حلال کھلایا،دینی و دنیاوی تعلیم دلوائی،باکردار،خوش گفتار،نماز پنجگانہ کا پابند،خوش الہان مؤذن،قاری اور نعت خواں بنایا اللہ سبحانہ ہو وتعالیٰ نے انھیں ان تمام خوبیوں سے بدرجہ اتم نوازاجو ایک شخص کوشخصیت بناتیں
گاؤں کے غیر تعلیم یافتہ ماحول اور ابتدائی تعلیم کے پرخار سفر کی داستان تو ناقابلِ بیان ہے وہ دوران تعلیم ہی بہترین مقرر اور مستند شاعر مشہور تھے عبد الرؤف اپنے ہم سبق اور ہم عمر بچوں سے کہیں زیادہ پختہ ارادہ اور مضبوط مستقبل سازی رکھتےوہ بچپن سے ہی اپنی درسی کتب اور کاپیوں پر جلی حروف میں “پروفیسر ڈاکٹر عبدالروف امیر خانوی”تحریر کرتے ،ان کے قیمتی کھلونوں اور اثاثہ جات میں “تختی”اور “بستہ”سب سے مرعوب تھا جس کا ذکر ان کی اوائل عمری کی شاعری میں بھی تھا

پھر آج یادوں کے مدرسے میں ہم ایک دوجے سے لڑ پڑے ہیں

پھر آج تو نے شدید غصے میں میری تختی سیاہ کر دی

اسی طرح ایک اور جگہ کہا:

میں جب روٹھا تھا بچپن میں تو گھر سے
تو بس اک تختی اور اک بستہ لیا تھا

زندگی میں کچھ کر دکھانے کا عزم لیے انھوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے شہر کا رخ کرتے ہوئے راولپنڈی کےپولی ٹیکنیک ( ای ایم ای) کالج میں داخلہ لیا یہ فیصلہ انھیں درپیش ایک ایسا چیلنج تھا جسے انھوں نے اپنی آئیندہ نسلوں کے لیے پل صراط کی مانند طے کرنا تھاکیوں کہ واپسی کا راستہ نہ تھا پھروہ اپنے ارادے میں کامیاب بھی ہوئے، امتحان کا نتیجہ ابھی زیر التوا تھا کہ دورانِ تعلیم کم عمری میں ہی والدین کی عائد کردہ شادی شدہ زندگی کی بھاری زمہ داری سے نبرد آزما ہونے کی خاطر والد کے ہم راہ ایچ ایم سی فیکٹری میں مزدور بھرتی ہوئے شایانِ شان ملازمت نہ ہونے پر دل مائل تھا نہ دماغ راضی اگرچہ فرماں بردارفرزند نے سر تسلیم خم کیا لیکن اپنی مایوسی کا اظہار اس دور کی ایک نظم میں یوں کیا:

شیشم کے شجر پر تو
بس بور ہی ہونا تھا
مزدور کے بیٹے کو
مزدور ہی ہونا تھا

جلد ہی ان کی خواہش بر آئی شاندار نتیجہ آنے پر انھوں نے پی او ایف فیکٹری میں بطور چارج مین اپنی قدرے بہتر عملی زندگی کا آغاز کیا

وہ کافی عرصہ تک شہری زندگی کے تجربات نو میں الجھے رہے شہر کے متلون مزاج لوگ ان کیسادہ لوح طبیعت سے کافی مختلف تھے رؤف امیر خانوی اور پھر رؤف امیر کے نام سے جانے پہچانے شاعر نے بہت جلد اپنے منفرد اور سچ کے اظہار والی صفت پر قومی و ادبی رسائل میں دھوم مچا دی ان کی شاعری میں الفاظ عدو،احباب،میرے اپنے،غیروں،رقیب اور حریف ان کی دشواریوں کا ذکر ہے وہ براہِ راست تکرار سے شاعری کو ذریعہ اظہار خیال بناتے ،اپنے پختہ ارادے اور حریفوں کو تنبیہہ کرتے انداز کا کچھ یوں ذکر کرتے ہیں

میرا یہ حق بھی چھین کر دیکھیں
ہمت آنجناب دیکھوں گا
چاک داماں چٹائی پر سو کر
اونچے محلوں کے خواب دیکھوں گا
میرا یہ حق بھی چھین کر دیکھیں
آسماں کو زمین ،کر دیکھیں!

پی او ایف فیکٹری میں ملازمت کے دوران علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی سے پرائیویٹ بی اے کیا پھر دو سال رخصت لے کر اصغر مال کالج راولپنڈی سے باقاعدہ ایم اے اردو کیا اور سیٹلائیٹ ٹاؤن کالج راولپنڈی میں لیکچرر تعینات ہوئے انھیں اس دوران اردو اور فارسی کے پروفیسروں کی رہنمائی اور قومی سطح کے ادبا وشعرا کا ساتھ میسر آیا جس نے ان کی شخصیت اور فن کو چار چاند لگا دئیے ٹیکسلا میں گندھارا سکول اور کالج کا قیام عمل میں لایاتو واہ ٹیکسلا پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے بانی سرپرستوں میں شمار ہوئے محض ستائیس سالہ یہ پروفیسر اقربا کی نظر میں کھٹکنے لگا اور یہ ادارہ خاندانی دشمنی کی نظر ہو گیا ٹیکسلا میں اپنے گھر کو خیر باد کہا اور کرائے کے مکان میں سکونت اختیار کی یہ ان کی زندگی کا مشکل ترین دور رہا ایک جانب” مکاں کرائے کا”ردیف کی دل گداز غزل کہی تو دوسری جانب ایک مداح کی جانب سے خستہ حال مکان کی ہرزہ سرائی پر شاعری سامنے آئی لیکن رؤف امیر پتھر سے سبزہ نکالنے میں کامیاب ہوئے ایف جی ای آئی کی لیکچرر شپ کا اعلان ہوا تووہ براہِ راست گریڈ سترہ میں ڈگری کالج فار مین واہ کینٹ میں تعینات ہوئے سرکاری گھر ملا ،ایم فل اردو کیا اور پھر اسی کالج میں گریڈ اٹھارہ کی براہ راست پوسٹ پر تعینات ہوئے ابھی سفر جاری تھا کہ پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کا ارادہ کیا لیکن محض 39برس کی عمر میں عارضہءقلب میں مبتلا ہوئے
پروفیسر رؤف امیر واہ کینٹ کی ہر دل عزیز شخصیت بن چکے تھےکالج میں اپنے مسحور کن انداز تدریس نے طلبا اور دیگر کالجوں کی طالبات میں ان کی قدر وقیمت بڑھا دی وہ بلا امتیاز تمام طالب علموں کی تعلیم کے ساتھ تربیت کرتے انھیں یہ وصف حاصل تھا کہ کم زور ترین طالب علم کو خوش خط تحریر لکھنے اور کم گو کو خوش گفتار بنا دیتے ہر طالب علم اپنا ہر معاملہ حل کروانے کے لیے معاونت و مشاورت حاصل کرتے طلبہ کی مستقبل سازی پرخلوص انداز میں کرتے اور ہر خاص و عام کے لیے ان کے دل اور گھر کے در ہمیشہ وا رہتے،اسی باعث ان کی علالت کی خبر سنتے ہی شہر بھر میں سنسنی پھیل گئی پی او ایف ہسپتال میں تیمارداروں کا تانتا بندھ گیا سیکیورٹی بلائی گئی اور آئی سی یو کے باہربیمار پرسی کرنے والوں کے لیے ایک رجسٹر رکھ دیا گیا تا کہ عوام کے ہجوم کو احسن طریقے سے تیمارداری کو موقع مل سکےانھیں دعاؤں کا آسرا ملا اور صحت یاب ہوئے

پروفیسر رؤف امیر کی زندگی نےاس کے بعد پلٹا کھایا اور وہ غیر معمولی کارہائے نمایاں سر انجام دینے لگے واہ سینٹرل لائبریری میں گوشہ ہائےاحمد ندیم قاسمی ، احمد فراز اورسید ضمیر جعفری کے قیام میں انتطامیہ کو ان کی رہنمائی اور معاونت حاصل رہی وہ واہ کینٹ کے علمی اداروں اور ادبی محافل کی جان بن گئے ان کے طلبہ اہم عہدوں پر فائز ہوئے انتظامیہ بلکہ پاکستان کے پالیسی ساز ارباب اختیار ان کے احباب میں شامل رہے لیکن انھوں نے اپنے زور بازو پر ہی انحصار کیا
اس ساری کوشش پیہم میں وہ گاؤں سے کٹ کر رہ گئے اور گاؤں میں عرصہء دراز کے بعد جانے پر یہ نظم کہی

نہ آیا یہاں پندرہ سال تک
رہا ایک چکر مرے پاؤں میں
یہ منظر بھی اب دیکھنا پڑا گیا
کہ ہوں اجنبی اپنے ہی گاؤں میں
جو بچپن کے سوئے ہوئے خواب تھے
مرے دل میں وہ جاگ اٹھے سبھی
جو معصوم تھے کھیل میں منہمک
مجھے دیکھ کر بھاگ اٹھے سبھی
میں جیسے کوئی اور مخلوق ہوں
کچھ آثار ایسے ہویدا ہوئے
وہ کیسے بھلا مجھ کو پہچانتے
جو بچے مرے بعد پیدا ہونے

ترقی کی منازل طے کرتے ان کی زندگی میں عقد ثانی ایک خوشگوار موڑ ثابت ہوا پی ایچ ڈی کی تکمیلیت،گریڈ انیس میں براہ راست تعیناتی اور قزاقستان میں اسکالر پاکستان چیئر منتخب ہونا ان پر قسمت کو مہربان ہونا ثابت کرتا رہاان کی زیر التوا کئی کتابیں شایع ہوئیں نئی تعیناتی میں وہ اعزازات حاصل کرتے رہے وہ واہ کینٹ اور ایف جی ای آئی کے سب سے پہلے اسکالر ٹھہرے اور پاکستان کم عمر ترین اسکالر پاکستان چیئر ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا قزاقستان میں اپنے قیام کے دوران انھوں نے مزید کتب تحریر کیں ان کی خدمات کے صلے میں ابلائی خان یونیورسٹی نے اکتیس ممالک میں سے انھیں تعریفی سند دی اور حکومت قزاقستان نے اپنے قومی سول آسق ایوارڈ سے نوازا جو کسی غیر قزاق اور پاکستانی کو پہلی بار دیا گیا تھا
سولہ ستمبر 2010کو الماتی قزاقستان میں سفر اجل کو روانہ ہوئے ان کی تدفین آبائی علاقے میں ہوئی
امیر خان کے غریب گھرانے کے اس چشم و چراغ نے بے تحاشا زخم سینے پر کھائے لیکن مسلسل محنت ،خلوص نیت،حسن کردار اور بلند نظریہ ءفکرسے خود کو تاریخ کا ناقابلِ فراموش باب بنا دیا
اللہ پاک ڈاکٹر رؤف امیر کے درجات بلند فرمائے آمین

یہ خبر شیئر کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں