بس عادت تھی ہڈ حرامی کی
آپا فاخرہ کی کچھ تو قسمت میں بھی بہت ہیر پھیر تھا دوسرے انھیں عادت بھی ہو گءی تھی ہر کسی کے سامنے اپنا پیٹ ننگا کر کے کچھ نہ کچھ ہتھیانے کی. جی میں اسے ہتھیانا ہی کہوں گی. جب اللہ پاک نے آپ کو دوہاتھ، دو پاوں، دو کان، دو آنکھیں، ایک ناک، سوچنے والا دماغ اور بغیر کچھ لیے بصارت دے کے مکمل صحت کے ساتھ اس دنیا میں بھیجا تو آپ پہ فرض ہو جاتا ہے کہ آپ پوری ایمانداری سے محنت و مشقت کر کے اپنے تمام جایز حقوق و فرایض پورے کریں. نا کہ ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے کسی غیبی مدد کا انتظار کریں.
کیونکہ بچہ بھی اگر رو کے اپنی بھوک کا اعلان نہ کرے تو ماں بھی اسے دودھ نہیں پلاتی. یا مثل مشہور ہے کہ حیلے کو وسیلہ یا بڑے ہی آسان الفاظ میں بیان ہے کہ ہمیشہ پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے،کنواں پیاسے کے پاس نہیں آتا. باجی فاخرہ زمیندار؛گھرانے کی معمولی شکل و صورت اور مضبوط کاٹھی کی الہڑ مٹیار تھیں شادی اس وقت ہوی جب شادی کی عمر تقریباً گزر چکی تھی ان کے ہان کی تمام لڑکیوں کی گود میں کءی ہوںکءی بچے تھے. لوگ رشتہ کرتے وقت گھر، گھرانے اور خاندان کو فوقیت ضرور دیتے تھے مگر لڑکی کی خوبصورتی بھی ضرور دیکھتے تھے، یعنی وہ زمانے قصہ پارینہ ہو چکے تھے جب صرف خاندانوں کے نام پہ نیلی، پیلی، چٹی، کالی، موٹی، چھوٹی اور بھدی لڑکیوں کے بیاہ ہو جاتے تھے یہ اوایل نوے کی دہائی کی بات ہے جب لڑکے بالے حسن پرستی میں بہت آگے نکل چکے تھے تو اللہ اللہ کر کے آپا فاخرہ کی شادی ایک معمولی جاٹ گھرانے کے لڑکے سے ہو گءی
جتنا زیادہ فاخرہ آپا کو شادی کا شوق تھا بھوک کی مار نے شادی کی خوشیوں کو شادی کے فوراً بعد ہی ماند کر دیا واقعی میں بھوک سے بڑا شاید ہی کوی سونامی ہو. اوپر تلے فاخرہ آپا کے تین بچے آپریشن سے ہوے دو بیٹے اور ایک بیٹی. آپریشنوں نے فاخرہ آپا کو مستقل روگی کر دیا وزن تو شادی سے پہلے بھی بہت زیادہ تھا اب باقی سارا الزام آپریشنز کو دے آپا واقعی میں بارہ من کی دھوبن بن گءی. خاوند کو پہلے اٹیک ہوا پھر فالج بیچارے نے جوانی میں ہی بستر سمبھال لیا اور تھوڑے عرصے بعد ہی موت کو گلے لگا لیا غربت تو پہلے ہی گھر کی باندی تھی اب نحوست نے بھی ڈیرے ڈال دیے بڑا بیٹا جو میٹرک کے فوراً بعد آسٹریلیا چلا گیا تھا اور ماں اس انتظار میں تھے کہ بیوگی میں بیٹے کی کمای پہ کاروبار حیات کو رواں دواں رکھ پاے گی یہ جان کے پریشان ہی ہو گءی کہ بیٹا بری صحبت کا شکار ہو چکا ہے. بد نصیب آپا فاخرہ سے شوھر اللہ پاک نے چھین لیا اور جوان بیٹا دنیا نے. یعنی
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
اب اگر کوئی سیانی بی بی اس نازک موڑ پہ ہوتی تو جینے کے لیے سو طرح کے پاپڑ بیلتی رزق حلال کے لیے ہر طرح سے ہاتھ پاوں مارتی. کوی ہلکی پھلکی ٹریننگ لے کر بیوٹی پارلر کھول لیتی،اچار، مربے چٹنیاں بنا بنا کر اپنا اور اپنے دو عدد بچوں کا پیٹ باعزت طریقے سے پال لیتی، کپڑے سینے میں انتہائی ماہر آپا باقاعدہ طور پہ کپڑوں کی سلای کا کاروبار چمکا لیتی اپنی دس قلعے زمین کو ٹھیکے پہ دے کے گھر بیٹھ کے عزت سے کیش کرواتی مگر اس عقل کی اندھی اور نمود و نمایش کی خواہاں آپا فاخرہ نے صرف دو بچوں اور اپنا پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لیے اپنے مرحوم شوہر کی زمین کو تھوڑا تھوڑا کر کے بیچنا شروع کیا اور یہ ہی نہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کے امیر لوگوں سے صدقہ خیرات بھی بٹورنا شروع کر دیا. ماں جو بچوں کی تعلیم و تربیت کی مکمل درسگاہ ہے اس نے اپنے بچوں کی راہ تو کھوٹی کر دی ناں انھیں صدقے خیرات کی رقم پہ پال پوس کے اور عیش و آرام کا عادی بنا کے. کسی بھی شادی اور فوتگی میں جانے سے پہلے آپا کی تیاریاں عروج پہ ہوتی ہیں نیے بہترین کپڑے اور نیے ہی جوتے اور بیوٹی پارلر سے تیاری تو آج کل ہر کوی ہی تیار ہوتا ہے. تو اپنے ارد گرد نگاہ دوڑا کے دیکھیے کہ ایسی کتنی فاخرہ آپا ہیں جو دور اندیشی کی مصلحت کی بجاے اس دکھاوے اور نمود و نمایش کا شکار ہو کر بری طرح سے اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی اور نا فرمانی کا شکار ہو رہی ہیں. ہر نعمت کا حساب لیا جائے گا اور ہمسری
آنکھیں
ہمارے کان
ہماری ٹانگیں
ہمارےپاوں
ہمارے ہاتھ
ہماری زبان
تمام ہمارے خلاف بیان دیں گے اگر ہم نے احکامات خداوندی کی حکم عدولی کی ہوی تو.
بحیثیت ایک قوم ہم نے محنت کو چھوڑ کے کام چوری کو اپنا لیا ہے محنت کرنے والے ہاتھوں میں جب کاسے آ جایں تو اقوام کی تباہی و بر بادی وہیں سے شروع ہو جاتی ہے.
شیخ سعدی کو جب جوتے چوری ہونے پہ ننگے پاوں چند قدم چلنا پڑا تو جوتوں کی عدم دستیابی پہ اللہ سے شکوہ کیا مگر تھوڑی دیر بعد ایک ٹانگوں سے معذور شخص کو دیکھا تو رب کے حضور شکرانے کے لیے سجدہ ریز ہو گیے. آج تمام دنیا کے نکھٹو لوگوں کو میرا پیغام ہے کہ آپ اپنی بے بسی کو کیش مت کرایے رزق حلال کمایے محنت کیجیے.
اور رزق حلال کمانے کی نیت رکھنے والے تو ٹوٹے ہاتھوں اور ٹوٹے پیروں سے بھی کام کر کے رزق حلال کما کے دنیا کے لیے ایک روشن مثال قائم کر جاتے ہیں.
تمام محنت کشوں کو سلام
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
drpunnamnaureen@gmail.com
