0

ہر کسی کو دوسرے سے بہت گھن آتی تھی

ہر کسی کو دوسرے سے بہت گھن آتی تھی
حواس خمسہ میں سے ایک حس سونگھنے کی ہے جس کی مدد سے ہم خوشبو اور بدبو میں تمیز کر سکتے ہیں. اور یہ حس اتنی طاقتور ہے کہ سراغرساں بڑی بڑی وارداتوں میں باقاعدہ تربیت یافتہ کتوں کو جاے واردات پہ ملزمان کی خوشبو سے واردات کے بارہ گھنٹے کے اندر ان ملزمان تک پہنچنے میں اپنا مددگار ٹھہراتے ہیں. اور اس میں کامیابی سے بھی ہمکنار ہوتے ہیں.
آنکھیں تو دنیا کے روپ سنگھار اور حسن بے انتہا سے فیض یاب ہوتی ہی ہیں مگر سونگھنے کی حس کا ہمیں کسی بھی شے کو پسند یا نا پسند کرنے میں بہت اہم کردار ہے.
شہر کی مین شاہراہ پہ دونوں طرف سے آنے والی ٹریفک رک چکی تھی. چاروں طرف سر ہی سر تھے اور بو کا سر چکرا دینے والا تعفن تھا تمام ہجوم نے اپنے ناک رومال، ٹشو پیپرز، کپڑے، دوپٹوں یا ہاتھوں سے ڈھانپ رکھے تھے. پولیس کے جتھے ایک ہنگامی کال پہ سڑک کنارے تعفن پھیلاتی ان چند بوریوں کو ایمبولینس میں رکھوا رہے تھے جنہیں چند شقی القلب رشتہ داروں نے زمین جائیداد کے تنازع پر جان سے مار ڈالا تھا اور پھر اپنے گناہوں پہ پردہ ڈالنے کے لیے رات کے کسی پل بیچ چوراہے بوریوں میں ڈال کر گلنے سڑنے کے لیے چھوڑ دیا تھا جون کے شدید گرم مہینے میں بد نصیب مقتولین کی گلتی سڑتی اور بو کے بھبھکے مارتی لاشیں چند گھنٹوں بعد ہی انتظامیہ کی نظروں میں آ گءی تھیں.
ظالم اور مظلوم
پھر مظلوم اپنی جاں سے گءے
اور ظالم کھڑے کٹہرے میں
انسان روز آفرینش سے آج تک اسی گناہ اور ثواب کے کھیل میں اندھا دھند مصروف ہے نہ اسے چین ہے اور نہ سکون.
مسز مظہر کے گھر ظہرانہ تھا شہر کی ساری اشرافیہ مدعو تھی پوری ٹیبل طرح طرح کے اشتہا انگیز اور نظروں کو لبھاتے ہوے کھانوں سے سجی ہوی تھی. ہر طرف خوشیوں اور محبتوں کی چہکار تھی سب خوشی خوشی کھانا کھا رہے تھے اچانک ایک خاتون نے کھانا کھاتے ہی غوطہ لگنے پہ بیچ کھانے کے ٹیبل پہ الٹی کر دی وہی ماحول جو خوشبوؤں سے معطر تھا ایک دم سوگوار اور بدبودار ہو گیا جن مادام نے نہ چاہتے ہوے حادثاتی طور پہ الٹی کر دی تھی وہ تو شرمندہ تھیں سو تھیں پر صاحب خانہ بھی ایک عجب طرح کی ندامت کا شکار تھیں تمام مہمان ایک ایک کر کے معذرت کرتے ہوے اس بد بو دار ماحول سے رخصت ہو گیے.
اپنے وقت کے ایک بہت بڑے جج جنہوں نے اپنے زمانہ اقتدار میں اپنے بچوں کے لیے مال و دولت کے انبار لگاتے ہوے اللہ پاک کی مقررہ حدود سے تجاوز کرنے کی حد ہی کر دی. مظلوموں کو دار پہ لٹکا دیا اور ظالموں کو ہر طرح کی چھوٹ دے دی. بچے پڑھ لکھ کے بیرون ممالک شفٹ ہو گیے بیوی کو اٹیک ہوا اور وہ چلتی پھرتی اس دنیا سے رخصت ہو گءی اب مکافات عمل کا نشانہ بننے کے لیے جج صاحب بمع اپنے محل نما گھر اور نوکروں کی فوج کے اکیلے رہ گئے جب تک پران رہے جج صاحب نے زندگی کا اور تمام نعمتوں کا خوب لطف لیا پھر خدا کی کرنی سے جج صاحب کو فالج ہو گیا زندگی صرف بستر تک محدود ہو گءی. ملازمین کا جتھا بھی مالک کو کمزور و ناتواں دیکھ کے دونوں ہاتھوں سے لوٹ کھسوٹ میں مشغول ہو گیا کءی سال بستر پہ رہنے سے جج صاحب کا صرف ڈھانچہ ہی رہ گیا جو پیشاب اور پاخانے کی فیکٹری تھا اللہ اس مشکل کی گھڑی میں کسی اپنے کا ساتھ ہو تو ہو ورنہ غیر تو اتنی نفرت انگیزی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ سوچ سے باہر ہے. یورپین ممالک میں جہاں آپ کا سب کچھ گورنمنٹ کا ہوتا ہے تو سرکار ایسے بستر تک محدود ہو جانے والے بزرگوں کو بہت مہنگے دام دے کر کام والوں کا بندوبست کرتی ہے اب یہ جج صاحب جن کے والی وارث یورپ میں تھے ملازمین نہ ان کی مناسب صفای کا خیال رکھتے تھے نہ ستھرائی کا جج صاحب کی کمر پہ پھوڑے اور سر میں جوءیں تھیں اور کمرہ پاخانے اور پیشاب کی ملی جلی بدبو سے بیڈ روم کم کسی مزدور کا ٹوایلٹ زیادہ معلوم ہوتا تھا. بدنصیب جج کا بد نصیب بیٹا اور فیملی والد سے ملنے آئے تو ناک پہ کپڑے رکھے رکھے دور سے ہی ہیلو ہائے کرتے ہوئے وآپس لوٹ گءے. حیف اس بدنصیب باپ پہ اور لعنت اس کے بدنصیب بیٹے پہ.
شہر کے بہت بڑے ہوٹل میں گاینی کی بین الاقوامی کانفرنس چل رہی تھی ادویات کی کمپنیاں اپنی اعلیٰ ترین ادویات کی مارکیٹنگ کے لیے دل و جان سے سر گرم تھیں ملک کے نامی گرامی پروفیسرز، ایم بی بی ایس ڈاکٹرز پہ ہر طرح سے اپنی دھاک بٹھانے کے جتن میں مصروف تھے. بیٹھنے کے لیے بھی انتظامات سٹیٹس کے حساب سے کیے گءے تھے ایک لیڈی ڈاکٹر صاحبہ نے چند پروفیسرز سے کچھ پوچھنے کی جسارت کیا کر لی. جھوٹی دنیا کے چند ریا کاروں کی تو جیسے جان پہ بن آی ایک ڈھانچہ ٹایپ کی نک چڑھی پروفیسر صاحبہ نے عینک اپنی طوطے جیسی ناک پہ رکھتے ہوئے انگلیاں لیپ ٹاپ پہ چلاتے ہوئے باقاعدہ طور پہ یہ فتویٰ سنا دیا کہ کراوڈ میں گنوار اور ان پڑھ لوگ شامل ہیں جس کی بو باقاعدہ پروفیسر صاحبہ کی ڈگری کی ناسیں ساڑ رہی ہے. سبحان اللہ.
جب بھی ہم گھر میں ضرورت سے زیادہ اناج ذخیرہ کر لیتے ہیں تو اسے گھن یا کیڑا یا پھپھو ندی لگ جاتی ہے. یہی حال سبزی اور پھل کے سٹور کرنے کا ہے کہ وہ گل سڑ جاتے ہیں اور عجیب سی سڑاند اور بدبو پیدا کرتے ہیں ہر گھر میں فرج اور ریفریجریٹر نے اس بری عادت کو پروان چڑھایا ہے وہ گاوں اچھے جہاں جو پکایا سب نے مل بانٹ کے کھا لیا کھانے کو سٹور کرنے کا رواج ہے نہ ارادہ.
نباتات اور انسانی نجاست کی بو کے علاوہ سب سے خطرناک بو بدصورت انسانی رویوں کی ہے اور ہماری بہت ساری سماجی، سیاسی اور معاشرتی برائیوں کے ساتھ ساتھ ہمارے گندے اور ناپاک رویوں نے اس بو اور تعفن میں مزید اضافہ کر دیا ہے.اس بو کی مختلف اقسام کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتی ہوں.
احساس برتری کی بو
اگر کوی خوش شکل ہے
اچھے گھرانے سے ہے
اچھی ذات برادری سے ہے
صاحب حیثیت ہے
بڑے گھر اور بڑی بڑی گاڑیوں کا مالک ہے
تو اس کی شخصیت اور ہر شے اس وقت
تعفن زدہ اور بدبو دار ہو جاتی ہے جب وہ اپنے سے کم حیثیت کے لوگوں کو اپنے سے کم تر اور حقیر جانتا ہے.
احساس تفاخر کی بو
یہ بھی احساس برتری سے ملتی جلتی بیماری ہے یہ شو بز کے لوگوں اور ادیب برادری میں بہت زیادہ پای جاتی ہے یہ نرا میں کا رونا ہے اور یہ اتنے چھوٹے اور تنگ ذہن و نظر کے لوگ ہیں کہ ساری عمر بس میں میں کرتے ہی اس دنیا سے گزر جاتے ہیں یہ حقیقت میں زندہ لاشیں ہیں چلتے پھرتے، سانسیں لیتے اور دوسروں کی سانسوں کو بند کرتے ہوئے مردے ہیں.
شہنشاہیت کی بو
یہ بو ہمارے شہنشاہوں میں شدت سے پای جاتی ہے اللہ جانے انہیں کہاں سے الہام ہو گیا ہے کہ حکومت ان کے گھر کی باندی ہے وہ بھلے جس طرح بھی عوام اور عوام کے حقوق کا ستیا ناس کریں باندی ہمیشہ ان کی خدمت کے لیے ان شہنشاہوں کی منتظر رہے گی.
طاقت کی بو
ہماری تمام بیوروکریسی اور حکومتی ادارے اس بو کے خمار میں اپنے آپ کو کسی بھی فرعون یا نمرود سے کم نہیں سمجھتے.
احساس کمتری کی بو
آج کل کی ہوش ربا مہنگائی کے عذاب نے ہماری غریب عوام کو اس بو کا مستقل اسیر بنا کے رکھ دیا ہے اب اس احساس کمتری کی بو کے شکار بھوک، بجلی کے بلوں، اضافی خرچوں کا شکار ہو کے بھلے موت کو گلے لگائیں یا فاقے کو حکمرانوں کو اس کی چنداں پرواہ نہیں
جلن کی بو
حسد کی جو ہنڈیا پکاتا رہا
وہ جلتا رہا بڑبڑاتا رہا
یہ دنیا میں پای جانے والی تمام بدبووں سے زیادہ خطرناک ہے یہ اپنے بہن بھائیوں میں ہو تو زیادہ خطرناک ہے دوست احباب اور رشتہ داروں کا تو حق بنتا ہے کہ وہ آپ کی ذہانت، صلاحیت، وقار اور رتبے سے حسد کریں
اس دعا کے ساتھ اجازت کہ اللہ پاک ہم سب کو صبر کی چادر اور حیا کے آنچل میں رکھے. آمین
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
drpunnamnaureen@gmail.com

یہ خبر شیئر کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں