0

*ٹائٹل: بیدار ھونے تک* *عنوان: ہماری نظر تمہاری تیسری اور چوتھی نسل پر ہے* *کالمکار: جاوید صدیقی*

*ٹائٹل: بیدار ھونے تک*

*عنوان: ہماری نظر تمہاری تیسری اور چوتھی نسل پر ہے*

*کالمکار: جاوید صدیقی*

غیر مسلم ممالک میں پر کشش زندگی کیوں؟ اور پاکستان سمیت دیگر مفلوج حال پست مسلم ممالک کیلئے رعایتیں اور سہولتیں آخر کیوں؟ پاکستان کے مسلسل بگڑتے تباہ شدہ معاشی و معاشرتی ماحول کیساتھ ساتھ عدم تحفظ اور بڑی دہشتگردی لوٹ مار کے اسباب اور خفیہ پلاننگ کس کی؟ تعلیم، صحت، خوراک انتہائی مہنگی مشکل ناپید کیوں کی جاتی رہیں، آخر اس کے محرکات کیا ھیں؟ اور بیشمار ایسے سوالات ھیں جو اب عوام کی سمجھ میں آرھے ھیں لیکن بہت دیر ھوچکی ھے، اب سنبھلنے کیلئے تمام کے تمام ذمہداران اور مجرمان کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہی اس وطن اور دین محمدی ﷺ کیلئے ناگزیر ھوچکا ھے، بصورت دشمنانان پاکستان اور اسلام جو چاہتے ھیں وہ ہوکر رہیگا کیونکہ مردہ قوم کو حق نہیں کہ وہ جیئے اور دنیا میں عزت و آبرو پائے، کیونکہ ایسی مردہ قوم کا مقدر ذلت و رسوائی اور غلامی ٹھہرتا ھے۔ ھمارے انتہائی معزز معتبر پیارے دوست بھی ہیں اور بھائی بھی۔ آپ ایک روحانی شخصیت ھے آپ کا گدی پشتی خاندان سلاسل و طریقت و شریعت کے پابند ھونے کیساتھ ساتھ آپ ﷺ کی غلامان کی حیثیت سے نورِ محمدی ﷺ کو پھیلانے میں اپنی خدمات پشتوں سے کرتے چلے آرھے ھیں۔ سجادہ نشین قبلہ حضرت صالح محمد قادری سوریا صاحب نے ایک تحریر مجھ خاکسار کو واٹس اپ کیا تاکہ کالم لکھ کر اپنے مسلمان بھائیوں اور دوستوں کو چمک و دمک کے دھوکہ سے آگاہ اور روشناس کرسکوں۔ معزز قارئین !! تحریر کچھ اس طرح سے ھے ۔۔۔۔۔۔ ایک صاحب جو کینیڈین نیشنل ہیں اور وہاں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے ہیں اب پاکستان واپس شفٹ ہونے کیلئے کوشاں ہیں، ان سے جب اسکی وجہ دریافت کی تو انکے انکشافات انتہائی خوفناک تھے، کہنے لگے کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بہت کانفرنسوں میں شرکت کی، جن میں چند ایک اسلام پر بھی تھیں، ان میں سے ایک کانفرنس کے بعد جب کچھ پروفیسر اور دیگر معززین بیٹھے کھانے پینے میں مشغول تھے اور گپیں لگ رہی تھیں تو باتوں باتوں میں انہوں نے پوچھا کہ آپ لوگ اسلام کے اتنے پیچھے بھی ہیں اور مسلمان ملکوں کے لوگوں کو نیشنلسٹی بھی دیتے ہیں تو ایک مقامی غیر مسلم پروفیسر بولا کہ ہم مسلمانوں کو نیشنلسٹی دیتے ہیں، وہ یہاں آتے ہیں، ہماری خدمت کرتے ہیں اور اسکے بدلے معاوضے کو اپنا اعلیٰ کیریئر مانتے ہیں جیسے آپ آئے ہیں، آپ یہاں ہماری حکومت کی نوکری کررہے ہیں اور ہمارے بچوں کو وہ پڑھا رہے ہیں جو ہم پڑھوانا چاہتے ہیں۔ اس کے بدلے آپ کو اچھی تنخواہ ملتی ہے اور آپ فیملی سمیت اچھی زندگی گزار رہے ہیں جو پیچھے آپ کے دیگر لوگوں کیلئے بڑی کشش رکھتی ہے اور ان میں بہت سے ہماری نوکریوں کیلئے تیار ہورہے ہیں۔ یہ ہمارا پہلا مقصد ہے اور دوسرا یہ ہے کہ آپ جیسے زیادہ تر لوگ اپنے مذہب پر قائم رہیں گے پر کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی اگلی نسل بھی آپ جیسی مذہب پر قائم رہنے والی ہوگی؟۔ ہمارے اندازے کے مطابق یورپ، امریکہ اور کینیڈا آنے والے ستر سے پچھہتر فی صد مسلمان اپنے عقیدے پر کسی نہ کسی طرح قائم رہتے ہیں پر اگلی نسل میں اسلام پر قائم رہنا صرف بیس سے پچیس فی صد رہ جائے گا اور اس کے بعد بس نام ہی مسلمانوں والا ہوگا اور ہوگا وہ ایسا لبرل مسلمان جو ہم بنانا چاہتے ہیں اس لئے ہماری نظر تم لوگوں کی تیسری اور چوتھی نسل پر ہے جو صرف نام کی مسلمان ہوگی۔ ہمارا پہلا مقصد تمہارے اعلیٰ دماغوں کو اچھے کیرئیر کا لالچ دے کر اپنا غلام بنانا ہے اور یہ کیرئیر ہماری نوکری کے بدلے ہے کوئی مفت میں نہیں ہے۔ دوسرا مقصد تمہاری نسلوں سے اسلام کو نکالنا ہے اور مٹادینا ہے اس کی جگہ ‘لبرل اسلام’ کو لانا ہے اور یہ کام تمہاری آنے والی نسلیں خود کریں گی۔ وہ صاحب کہنے لگے کہ اس انگریز پروفیسر کی باتیں سن کر میں نے جب اپنے بچوں کا تجزیہ کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس پروفیسر کی باتیں اور اندازے ناقابلِ یقین حد تک درست ہیں۔ مجھے اپنے بچوں میں دنیاوی معاملات میں کیرئیر بنانے کی، آگے بڑھنے کی اور اس ماحول میں رچ بس جانے کی لگن نظر آئی اور نہیں نظر آیا تو دین اسلام نظر نہیں آیا۔ اب میرے پاس ہاتھ ملنے اور پشیمانی کے علاؤہ کچھ نہیں ہے کیونکہ دنیاوی معاملات میں الجھ کر اپنی اولاد کو نہ دین محمدی ﷺ کی روشنی پہنچا سکا اور نہ ہی اپنی سماجی اقتدار سے بہرہ مند کروا سکا۔ اب واپس جانا پڑا تو خود ہی جاسکتا ہوں کیونکہ اولاد تو کینڈین شہری ہے اور ان پر اب میرا کوئی زور نہیں ہے۔ میں ان کی باتیں سن کر سوچ میں پڑ گیا کہ اس انگریز پروفیسر کی باتیں صرف باتیں نہیں ہیں بلکہ اسلام دشمنی اور ہماری سماجی، معاشرتی اقتدار کو توڑنے کا کئی دھائیوں پر مشتمل ایک پلان ہے۔ سنہ انیس سو اسی اور نوے کی دھائیوں تک پرائیویٹ اسکولوں میں داخلے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا پھر ہوا کا رخ بدلا گیا اور اب سرکاری اسکولوں میں داخلے کو نیچ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کا نظام بڑی پلاننگ اور سازش کیساتھ برباد کردیا گیا ھے جس میں براہ راست سیاسی جماعتیں اور حکمران پیش پیش ھیں۔ انگریز نے ان ایجنڈوں ملک و قوم کے غداروں کے ذریعے ہمارے تعلیمی نظام کو ایسا بنوا دیا کہ سرکاری اسکولوں میں انگریزوں کے پالتوں کے ووٹروں اور سپوٹروں کی کھیپ تیار ہو اور پرائیویٹ اسکولوں میں اچھے کیرئیر کا لالچ دے کر اپنی خدمت کیلئے غلاموں کو تیار کیا جا سکے اور ان غلاموں کے ذہنوں میں نقش ہو کہ انگریز ان سے افضل ہیں۔ آج کل کے حالات میں اپنی استعداد کے مطابق بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانا بہت ضروری ہے مگر ان پر نظر رکھنا کہ کہیں کوئی غلط عقیدہ یا نظریہ تو ان کے دماغوں میں نہیں ڈالا جارہا یہ بھی بہت ضروری ہے اور ان کو دینی تعلیم دلوانا ہم پر لاگو ہے۔ اسکولوں اور کالجوں پر نہیں اس لئے ان کی دینی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرنا اشد ضروری ہے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام اشرفیہ اور یہود و نصاریٰ کا غلام تو تیار کررہا ہے پر وہ مسلمان تیار نہیں کررہا جس کی ‘خودی’ کا، ‘حرمت’ کا، ‘عشق’ کا، ‘ولولہ’ کا اور ‘جوشِ ایمانی’ کا اظہار علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے جابجا کیا ہے۔ ہم لوگ جنت اور حوروں کے طلب گار بھی ہیں اور دعویٰ دار بھی ہیں کہ یہ سب کچھ صرف ہمیں ملیں گی اور کفار کو کچھ نہیں ملے گا پر زندگیوں میں اسلام کو صرف اتنا لانا چاہتے ہیں جو ہمارے مفادات کے آڑے نہ آئے۔ امن پسند اتنے ہوگئے ہیں کہ عزت و ناموس پر حملوں کے وقت بھی امن ہی یاد آتا ہے۔ انسانیت کا درس دیتے نہیں تھکتے پر جب یہود و نصاریٰ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے ہیں تب کبھی کبھار کوئی مذمتی بیان جاری کر کے جان چھڑا لی جاتی ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لی جائے سنہ انیس سو باون کی پہلی تحریک ختم نبوت سے لے کر آج تک ہر لیڈر اور حاکم میں اسلام اور عشاق کیلئے بغض اور کفار و گستاخوں کیلئے ہمدردی نظر آتی ہے۔ بد قسمتی سے ہزاروں، لاکھوں کلمہ گو، علماء اور نام نہاد عاشق بھی ان لیڈروں، حاکموں کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ اس لئے ہی آج قوم ذلت و رسوائی کی گہرائیوں میں ڈوب چکی ہے۔ اسلامی تاریخ بانگ درا بتا رہی ہے کہ عزت صرف اس کی ہوئی جس نے عزت و ناموس اور ختم نبوت پر پہرہ دیا اور وہی قوم کامیاب ہوئی جو دین حق اسلام کے قوانین پر چلی۔ بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم ضرور دلوائیں پر اس کے ساتھ ساتھ اچھا اور مضبوط مومن و مسلمان بھی ضرور بنائیں۔۔۔۔ معزز قارئین!! میں سالہا سال سے لکھتا چلا آرھا ھوں کہ خدارا اس نظام جمہوریت سے چھٹکارہ پائیں کیونکہ یہ نظام ہی یہود و نصاریٰ کا بنایا ھوا ھے جس کے ذریعے وہ مسلم ممالک میں نظام مصطفیٰ ﷺ رائج ھونے نہیں دیتے کیونکہ وہ آپ کے ہی چند ایک بے ایمان لالچی بے وفا غداروں کو منتخب کرتے ھیں جو با اثر اور بااختیار بھی ہوتے ہیں ان چند گروہ میں مقتدر قوتیں، دینی رہنما، حکمرانوں جسٹس و ججز و جرنیل اور ایلیٹ طبقہ کو بھاری مراعات اور مال و دولت کے علاوہ دنیاوی تمام عیاشیاں فراہم کرکے ملک و قوم کو اسلام سے دور رکھتے چلے آرھے ھیں، اگر قوم نے ان غداروں کا راستہ نہ روکا تو یہ ملک تو ملک امت محمدی ﷺ کو ناتلافی نقصان پہنچانے کے مجرم ھونگے قوم کی سستی و غفلت اللہ کے ہاں معافی نہیں ایسی سست اور غافل قوم دوسروں کیلئے نشان عبرت بن کر رہ جاتی ھے۔۔۔۔۔!!

یہ خبر شیئر کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں