0

آج کل مہنگائی کا جن پورے کا پورا بوتل سے باہر آ چکا ہے. گرانی کے عفریت نے ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے. امیر امراء کو تو کچھ فرق نہیں پڑتا مگر تنخواہ دار، دیہاڑی دار.اور نکھٹو عوام تو آ گءی ناں قابو میں. پیٹ کی آگ وہ پاپی آگ ہے جو پل پل خوراک کا ایندھن مانگتی ہے.

یہ زینب کا دستر خوان ہے.
بھوک
بھوک کی اذیت کو
میں نے چکھا باربار
غم میرے گلے کا ہار
اور
درد بے شمار
بھوک کی اذیت سے
بلبلا کے رو دیے
حکمران اندھے تھے
گونگے اور بہرے بھی
بولے
کیک کھایے
گر نہیں روٹی حضور
اس طرح کے دیس میں
کیسے سانس لیتے ہم
کس طرح سے جیتے ہم
پر ہمیں جینا پڑا
آج کل مہنگائی کا جن پورے کا پورا بوتل سے باہر آ چکا ہے. گرانی کے عفریت نے ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے. امیر امراء کو تو کچھ فرق نہیں پڑتا مگر تنخواہ دار، دیہاڑی دار.اور نکھٹو عوام تو آ گءی ناں قابو میں. پیٹ کی آگ وہ پاپی آگ ہے جو پل پل خوراک کا ایندھن مانگتی ہے.
اور گندم، چاول، چینی، شکر، نمک، مرچ، مصالحہ جات، پتی دودھ کے نرخ تو چڑھ گیے راتوں رات آسمانوں پہ اور عام لوگ سوچنے لگے کہ کھائیں کیا اور پییں کیا. روٹی تو سب نے کھانی ہی کھانی ہے بھلے مرغ مسلم کے ساتھ کھائیں یا دال کے ساتھ دال نہیں تو چٹنی کے ساتھ اور چاے کے شوقین تو اگر دودھ پتی نہیں ملتی نہ ملے چاے پہ تو ضرور ہی نظریں لگا کے بیٹھے ہوتے ہیں. اور چاے سے مجھے مس نفیس اور ان کی آٹھ نندوں کی. لڑای یاد آ گءی جو شام کی چاے پہ ان کے گھر میں بلا ناغہ شروع ہو جاتی تھی.
مسءلہ چاے کا نہ تھا چاے کے اوپر ڈالی جانے والی بالائی کا تھا اللہ جانے مس نفیس کی نندوں کو دودھ پتی جیسی چاے کے اوپر سجری بالائی کا کیا مزہ آتا تھا کہ کبھی فرزانہ، کبھی طاہرہ، کبھی شازیہ تو کبھی مروت من بناتی، غصہ دکھاتی مس نفیس کے سر پہ مسلط ہو جاتی کہ بھابھی مجھ سے کوئی خاص دشمنی تھی جو میری چاے میں بالائی نہیں ڈالی اور بیچاری، دکھیاری بھابھی کو سمجھ نہ آتی کہ اپنا سر پیٹے یا ماتھا کہ دو کلو دودھ کے اوپر سے اتاری ہوی بالائی کو دس چاے کے کپوں پہ ڈالنا بھی اچھا خاصا جان جوکھوں کا کام تھا.
انسان ذایقوں کے خمیر میں اس قدر گندھا ہوا ہے کہ اپنا پسندیدہ ذایقہ اور پسندیدہ کھانا کھانے کے لیے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک دوڑا چلا جاتا ہے. مجھے چند سال قبل گوجرانوالہ کی وہ فیملی نہیں بھولتی جن کی بڑی دو بیٹیوں نے پہلا روزہ رکھا تو باپ سے فرمایش کر ڈالی کہ افطاری چمن کی آیس کریم سے ہی کریں گی مگر جیسے دانے د ا نے پہ کھانے والے کا نام لکھا ہوتا ہے اسی طرح ہر سانس کی آنی جانی بھی رب کی رضا کے مطابق ہے جونہی یہ فیملی رچنا ٹاون پہنچی ایک ٹرک سے بچتے ہوے گاڑی ایک درخت سے جا ٹکرای اور بڑی بیٹی بحالت روزہ موقع پہ ہی جان بحق ہو گئی باقی تمام خاندان کے لوگ بھی پھٹر ہو گیے.ذایقے کی تلاش میں لوگ جان سے گیے.
ذرا غور فرمائیے بھلے تمام دنیا کے انسان فطرتاً ایک جیسے ہیں مگر ان کے کھانے کی عادات اپنی اپنی ہیں اور یہ ضرب الامثل سبکے لیے فٹ
دکھای پڑتی ہے کہ
کھاو من بھاتا
پہنو جگ بھاتا
میں ایر پورٹ پہ چند مہمانوں کو رخصت کرنے گءی تھی اییر پورٹ ہر رنگ ونسل کی عورتوں اور بچوں سے بھرا پڑا تھا مسءلہ وہی اپنے ذایقے اور اپنی روٹی.
ملک کے ایک سابقہ وزیر اعظم تو اتنے چٹکورے تھے کہ ان کے دور حکومت میں بریانی اور بونگ پاے باقاعدہ طور پہ پی آی اے کی پروازوں پہ سفر کرتے ہوے وزیراعظم کی دل پشوری کے سامان میں کوی کمی نہ چھوڑتے تھے.
کچھ لوگ تیز مرچ مصالحے کے شوقین ہوتے ہیں تو کچھ لوگ پرہیزی کھانوں کے. کچھ شوق سے کم مرچ مصالحے کھاتے ہیں اور کچھ پرہیز کی تقلید میں. ہمارے ہمسائے میں بیگ صاحب کی بیگم ایک دن ہمارے گھر آیں اور بولیں ہم نے تو کام والوں کے کھانے پینے کا علیحدہ سامان رکھ چھوڑا ہے یہ بالکل اتنا ہی برا فعل ہے جیسا آپ نے اکثر بڑے بڑے شاپنگ مال میں دیکھا ہو گا کہ شاپنگ کے اینڈ پہ تمام خاندان کے لوگ کھانے اڑا رہے ہوتے ہیں اور ملازم بیچارے منہ بسور کے ایک طرف بیٹھے ہوتے ہیں جب کہ ہمارا مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ملازم کو سب سے پہلے کھانا دو.
مگر ہمارے یہاں الٹی گنگا بہتی ہے. مگر دنیا اچھے لوگوں کی اچھائیوں کی وجہ سے ہی چل رہی ہے زینب ایک غریب عورت ہے اسے شوگر بھی ہے اور دل کا مسءلہ بھی اس کا میاں بھی ایک مزدور ہے بچہ کوی نہیں مگر زینب اتنی نیک دل ہے اللہ کے َاتنی نزدیک ہے کہ اس نے اپنا باورچی خانہ ہر کس و ناکس کے لیے کھول رکھا ہے اللہ پاک زینب کا یہ اجر عظیم قبول فرمائے کیوں کہ میرا اپنا عقیدہ ہے کہ سب سے بڑی انسانیت بھوکے کو کھانا کھلانا ہے ان تمام لوگوں جو سلام جو دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں کسی نہ کسی صورت میں بھو کے پیٹ کی بھوک بچانے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Drpunnamnaureen@gmail.com

یہ خبر شیئر کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں