“سیاست کا جمود”
تحریر علی شیر خان یوسفزئی۔ فیصل آباد
شہزاد رائے کا وہ گانا کافی مشہور ہوا ۔جس میں انہوں نے بچپن سے ابتک ملک کو نازک موڑ پر ہی دیکھا ہے۔ شہزاد رائے کو میرا پیغام یہ ہے کہ ملک اب واقعی ایک نازک موڑ پر ہے اور موڑ مڑتے ہی کیا ہمارے سامنے آنے والا ہے ۔میں تو اس کے بارے میں سوچ کر ہی لرز جاتا ہوں۔
پچھلے دو ہفتوں سے میں زیادہ تر وقت سوشل میڈیا پڑھنے میں گزراتا ہوں۔ کہ ہمارے جمہوریت کی دھن میں مدہوش دانشور آجکل کیا کہہ رہے ہیں۔ ان کے ذمہ یہ کام ہے ۔کہ یہ قوم کی رہنمائی کریں۔ مگر یہ خود اتنی ذہنی الجھن کا شکار ہیں ۔کہ پہلے آپنی ذہنی الجھن پر کام کرنا چاہیے۔یا پھر اس قوم کو بھاشن دیں۔ مثلاً یہ ہر وقت اس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کہ نئے الیکشن جلد سے جلد کرائے جائیں۔ مگر پھر اگلے ہی لمحے یہ بھی غم کے الیکشن سے بھی کچھ نہیں ہوگا۔ وہی چہرے دوبارہ آ جائینگے۔
میں ان بھٹکے ہوئے دانشوروں سے پوچھنا چاہتا ہوں ۔کہ جب پاکستان میں آج تک کوئی ایک بھی سیاستدان ریٹائر نہیں ہوا تو مائنس آل کے علاوہ کیا حل ہے۔ نواز شریف تین دفعہ ناکام ہونے کے بعد اب چوتھی باری چاہتے ہیں۔ تین دفعہ اسلئے ناکام ہوئے۔ کہ عوام کے ووٹ کے بجائے کسی کے کندھوں پر چڑھ کر آئے۔ اور اب پھر ایک ڈیل کے تحت آ رہے ہیں۔ زرداری کو تو خود ان کے بیٹا کہہ رہا ہے ۔بس کردو اب خود اس پر بھاری پڑ رہے ہیں۔ پرویز الہی ہر عہدے رکھ چکے ہے۔ مگر اب بھی امید سے ہیں۔ عمران خان ستر سال کی عمر میں دوسری باری کے منتظر ہے۔۔ یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم وہ بھی اب سینٹر ہیں۔ غرض یہ کہ پینسٹھ ستر سال کا ایک گروپ ہے۔ اور قومی صوبائی اسمبلیوں پر قابض ہیں۔ جب میں مائنس آل کی بات کرتا ہوں۔ تو اس کا مطلب ہوتا ہے۔ انہیں ہاتھ جوڑ کر ریٹائر کر دو۔ یہ ہمارے کسی کام کے نہیں ہیں۔ صرف کٹھ پتلیاں ہیں۔
دوسری طرف ہمارے پنڈی والے ہیں۔ ایک جاتا ہے۔ تو دوسرا ڈاکٹر آئین لے کر آجاتا ہے۔ جو ڈائن کی طرح اس قوم کو ڈستی ہے۔ ان کا خیال ہے ۔کہ قوم کو کچھ سمجھ نہیں آتا۔ مقصد اس عمل کا یہ ہوتا تھا ۔کہ قوم کو خوف سے قبضے میں رکھیں۔ اب آجکل مارشل لاء قومی اور صوبائی حکموتوں میں ہے۔ اب یہ سیاستدانوں کو ویسے ہی تھپڑ اور مرغا بنا کر ذلیل کرتے ہیں۔ تاکہ ان کے کنٹرول میں رہیں۔ شاہ محمود، پرویز الہی اور شہباز شریف ساری عمر ان کے قدموں میں بیٹھے رہے۔ مگر ان کو ہر قدم میں ایک دوسرے کے ہاتھوں ذلت ہی ملی۔ حکومت اور عہدے بھی دیے تو ڈوریوں میں کس کر۔
ہمارے سیاست دانوں کی تربیت میں شائد کچھ بہت ہی کمی رہ گئی ہے۔ اور اس تربیت میں اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ انہیں سامنے کی بات سمجھ نہیں آتی۔ اور منطق ان کے قریب سے نہیں گزری۔ لوگ کالے ویگو میں اٹھائے جا رہے ہیں۔ ہر طرف لاقانونیت ہے۔ صرف حکومت کا ڈنڈا چل رہا ہے۔ ایسے ملک میں کوئی سرمایہ کار آئے گا؟ کیا آپ نے کبھی سنا ہے ۔کوئی سیاست دان کسی بھی ملک میں سرمایہ لانے نکلے ہوں۔ سرمایہ دار چوروں والوں سے دور بھاگتے ہیں۔ صرف ہمارے ہی کاروباری ہیں۔ جو سیاست دان کو استعمال کر کے پچھتر سال سے اس ملک کو کھا رہے ہیں۔ اور عوام کو دیوالیہ کر دیا ہے۔
اس ظالم جمہوریہ کے بچنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اور اس کی ذمہ داری ذہنی انتشار کا شکار جعلی جمہوریت کی دھن پر مدہوش دانشوروں کے سر ہے۔ میں آجکل ترکیہ کے مزاحیہ ڈرامے دیکھ رہا ہوں۔ پاکستان میں جو مزاق چل رہا ہے۔ وہ ایک ٹریجڈی ہے۔۔