0

جھوٹ کے جہان میں سچ کون بولے گا ماہ رخ. نماز پڑھنے کے بعد جونہی اپنے آٹھ سالہ بیٹے ذوہیب کو جگانے کے لیے جھکی. تو ذوہیب نے معصوم سی شکل پہ زمانے بھر کی مظلومیت طاری کر کے ماں سے کہہ دیا ماما آج تو میری طبیعت خراب ہے میں سکول سے چھٹی کروں گا

جھوٹ کے جہان میں سچ کون بولے گا
ماہ رخ. نماز پڑھنے کے بعد جونہی اپنے آٹھ سالہ بیٹے ذوہیب کو جگانے کے لیے جھکی. تو ذوہیب نے معصوم سی شکل پہ زمانے بھر کی مظلومیت طاری کر کے ماں سے کہہ دیا ماما آج تو میری طبیعت خراب ہے میں سکول سے چھٹی کروں گا اکلوتے بیٹے کی خرابی طبیعت کا سن کے ماں کی. مامتا بے چین ہو گءی. سارے کام چھوڑ کے زوہیب کو ہسپتال لے گءی ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ بچہ بظاہر تو ٹھیک ہے مگر شدید دباو میں ہے مزید معلومات کرنے پہ معلوم ہوا کہ سکول کی ایک استانی بچے کو خواہ مخواہ ڈانٹ دپٹ کرتی تھی اور بچہ اس ڈانٹ ڈپٹ کی وجہ سے سکول جانے کے لیے آے دن جھوٹ بول کے سکول کی اس استانی سے جان چھڑاتا تھا. یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے اس طرح کے بے شمار واقعات ہر طرح کے سٹوڈنٹس کو زمانہ طالب علمی سے لیکر اپنا مستقبل بنانے اور اپنا مستقبل بنانے سے لیکر اپنی ملازمت برقرار رکھنے کے دوران متعدد بار پیش آتے ہیں. دنیا کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے کانٹوں کا بستر ہے لوگ ہمیں ہماری راہ سے ہٹانے کے لیے تاک تاک کے نشانے مارتے ہیں اب یہ ہماری ہمت ہے کہ ہم ارادے کے کتنے پکے ہیں ہمارا مقصد ہم سے کتنی قربانی مانگتا ہے اور ہم کتنے مستقل مزاج ہیں کہ اپنی مشکلات کو ہنس ہنس کے سہتے اپنی منزل تک پہنچ جائیں.
جھوٹ کے جہان میں
جھوٹ کے جہان میں
بے رخی کی کان میں
درد سہنے پڑ گیے
جینے کے لالے پڑے
سچ کو سہنا پڑا
زہر کے پیالے پءیے
لوگ سچے یوں جیے
تو سچ بولنا ایک مشکل کام ہے. جبکہ جھوٹ سچ کی ضد ہے ایک آسان راستہ ہے جو بہت سارے لوگ اپنے بہت سارے کام کرنے کے لیے شارٹ کٹ کے طور پر اپناتے ہیں جبکہ جھوٹ نہ صرف یہ کہ سو معاشرتی برائیوں کی ماں ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جھوٹ کے نہ پاوں ہوتے ہیں نہ ہاتھ نہ روح نہ دل اور نہ ہی دماغ اور ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے سو مزید اور جھوٹ بولنے پڑ تے ہیں. اور سب سے پہلا جھوٹ ابلیس مردود نے بولا تھا جب اس نے حضرت آدم علیہ السلام کو حیات دایمی کا جھانسہ دے کر شجر ممنوعہ کا پھل کھانے پہ آمادہ کر لیا. اور حضرت آدم علیہ السلام اللہ کی نافرمانی کے مرتکب ہو گیے. کسی مذہب میں بھی جھوٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہاں جھوٹ کی گنجائش
جنگ میں
صلح صفائی کروانے کے لیے
خاوند بیوی کی ناراضگی سے بچنے کے لیے مصلحتاً جھوٹ بول سکتا ہے.
ایک مرتبہ ایک شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا یا رسول اللہ میں
جھوٹ بولتا ہوں
زنا کرتا ہوں
شراب پیتا ہوں
تو کونسا گناہ چھوڑوں کہ میرے سب گناہ چھوٹ جایں رسول پاک صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا بس جھوٹ چھوڑ دو تمہارے باقی سب گناہ خود بخود چھوٹ جایں گے.
آج صبح جس مریضہ کو چیک کیا وہ چھ بچوں کی ماں تھی اور اب اپنا ساتواں بچہ اپنی بے اولاد جیٹھانی کو دینا چاہتی تھی یہاں تک مجھے اس کی اس ادا، اس قربانی پہ بہت پیار آیا مگر اس کا اگلا مطالبہ میرے لیے پریشان کن اور میرے فرایض کی راہ میں رکاوٹ تھا وہ اپنے خاندان والوں کو یہ ثابت کرنا چاہتی تھیں کہ یہ بچہ، بیس سال بعد اس کی جیٹھانی کی کوکھ سے پیدا ہوا ہے اور وہ تمام رپورٹس اپنی جیٹھانی کے نام کی بنوانا چاہتی تھی. یہ ماڈرن جھوٹ، جس سے آپ کا بھرم بھی رہ جاے اور دنیا بھی آپ پہ واہ واہ کرے میں نے بہت دفعہ دیکھا اور لوگوں کو اس جھوٹ کا خمیازہ بھگتتے بھی دیکھا.
چند ماہ پہلے بلقیس طاہر اپنی پچیس سالہ دو بچوں کی ماں کو لے کر میرے پاس روتی بلبلاتی ہوی آیں اور بولیں کرن کو اس کے خاوند نے بہت مارا ہے اب میں اسکے خاوند کے خلاف پکا پر چہ کروانا چاہتی ہوں تاکہ پولیس والے اس کی خوب چھترول کریں. آپ اسے بیہوشی دے کر اس کی انگلی توڑ دیں میری تو یہ سن کر روح بھی کانپ اٹھی. میں نے کہا بلقیس بیہوشی ہم بیہوشی والے ڈاکٹر سے دلوا دیتے ہیں انگلی اپنی بیٹی کی تم خود توڑ لینا بلقیس بی بی تڑپ اٹھی نی ڈاکٹر تو مینوں قصای سمجھ لیا توں تے پہلے وی ٹڈھ پاڑن دی ماہر ویں. وہ احمق اپنی بے جا ضد کو ایک زندگی بچانے والے آپریشن سے ملا رہی تھی بہرحال بڑی مشکل سے بی بی بلقیس سے جان چھڑای اور دس دن بعد پتا چلا کہ میاں بیوی کی صلح ہو گءی ہے.
سچ تو یہ ہے کہ اس جھوٹ کے سہارے کاروبار حیات چل رہا ہے. حکومتیں، سیاستیں، کاروباری دھندے. معمول کے تمام کام جھوٹ کے تانے بانے پہ استوار ہیں. بابا گھر پہ نہیں ہیں سے لیکر امور سلطنت کے نااہل حکمرانوں کی اہلیت اور نا اہلیت تک کے سب باب اسی کاروان جھوٹ کے ارد گرد چکراتے پھرتے ہیں.
بچے سکول سے لیٹ تھے جو کوی جھوٹ کا سہارا لیتا تھا وہ بچ جاتا تھا اور جو سچ بولتا تھا اسے جرمانہ ہو جاتا تھا. جن بچوں نے سارا سال جی جان سے محنت کی تھی وہ انٹری ٹسٹ کی لسٹ میں آخری نمبر پہ تھے اور جنہوں نے جھوٹ، رشوت اور اقربا پروری کا سہارا لے کر نقالی کے تمام اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دیے تھے وہ انٹری ٹیسٹ کی لسٹ میں ٹاپ پہ تھے تو تھوڑی دیر کے لیے سنجیدگی سے غور فرمائیں کہ اب ہمارے ملک میں ڈاکٹر وہ بنیں گے جو انتہائی نکمے، نالائق، جھوٹ کے ماہر، چور بازاری اور رشوت میں طاق. اور بڑے دھڑلے اور ڈھٹائی سے حق داروں کا حق مارنے کے ماہر ہوں گے وہی حساس ترین پوزیشنز پہ تمام لوگوں کے استحصال کے لیے موجود ہوں گے تو قومیں جب جھوٹ جیسے موذی مرض کو سیڑھی بناتی ہیں تو پھر اسی طرح تباہ ہو کر رہ جاتی ہیں جو آج کل ہمارا حال ہے.
سچ مایں اور گھروں کی تربیت سکھاتی ہے سچ آپ اپنے بڑوں سے سیکھتے ہیں جب آپ نے آنکھ ہی جھوٹ کے جہان میں کھولی ہو تو آپ چاہ کر بھی سچ نہیں بول سکتے.
بکرا منڈی میں عیدالاضحیٰ کی وجہ سے بہت رش تھا عبدل الہادی نامی ایک سکول ماسٹر نے کچھ پیسے قربانی کے واسطے جوڑ رکھے تھے بڑی لمبی بحث تکرار کے بعد ایک سمارٹ سا بکرا پندرہ ہزار میں خرید کر جب عبدل الہادی خوش خوش گھر پہنچا تو اس کے بیوی بچے بھی خوشی سے نڈھال ہو گیے مسءلہ اس وقت بنا جب شام کو بکرا کھڑا کھڑا گر پڑا اور اس کے منہ سے جھا گ نکلنے لگی قربانی کی حسرت کو دل میں دبا کے بکرے اونے پونے قصای کے حوالے کر دیا گیا.
تازہ سبزیاں اور تازہ پھل کے آوازے دے کر باسی چیزیں بیچنے کا قصہ تو صدیوں سے رایج ہے. اور تو اور اس جھوٹ کی رسم کو رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بھی خوب زور و شور سے باسی پکوڑوں، سموسوں، دھی بھلوں، چاٹ اور کھانوں کی مد میں زور و شور سے جاری رکھا جاتا ہے وزن کے باٹ اور کپڑے کی پیمائش کے آلہ جات تو کم ہوتے ہی ہیں پٹرول کے میٹر بھی بے ایمانی کے مقابلے میں پیچھے رہنے سے چوکتے نہیں.
سچ اس چھوٹے عبدالقادر جیلانی سے سیکھیے جس نے قافلے پہ حملہ آور ڈاکوؤں کے سوال پہ بتایا کہ پیسے میرے قمیض کے اندر سلے ہوے ہیں.
اور سچ کی جیتی جاگتی مثال حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں جنہیں ان کے جانی دشمن اہل قریش بھی صادق اور آمین کہتے تھے.
لوگ جھوٹ اور فراڈ کے کندھے پہ سواری کرتے ہوئے جھوٹی ڈگریاں لے کے اچھی خاصی نوکریاں کرتے ہیں فوائد حاصل کرتے ہیں اور پھر خالی ہاتھ اس دنیا سے گزر جاتے ہیں ساری دنیا کے لیے نشانہ عبرت بننے سے بہتر ہے کہ صبر و استقامت اور سچ پہ انحصار کریں. اس دعا کے ساتھ اجازت کہ اللہ ہمیں سچ بولنے کی ہمت اور جھوٹ سے پناہ میں رکھے آمین
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
drpunnamnaureen@gmail.com

یہ خبر شیئر کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں