0

وہ بچھڑا یوں کہ سارا منظر بدل گیا سینہ جلا چولہا بجھا چراغ جل گیا

وہ بچھڑا یوں کہ سارا منظر بدل گیا
سینہ جلا چولہا بجھا چراغ جل گیا
پلکوں پہ کہکشاں ساگر خاموش تھا
کاجل بہا یوں کہ آپ کا سپنا بکھر گیا
سیپیاں ہی چنتے رہے ساحلوں پے لوگ
تھی دھوم جس کی وہ ہیرا کدھر گیا
بنا اخبار تو گلیوں میں رل گیا
وہ پھول وہ ماں کا پیارا کدھر گیا
دن بدلتے ہی دل بھی بدل گئے
اپنا غیر دوست یار وہ پرایا کدھر گیا
اس بار بھی جج نے تاریخ سوموار کی ڈال دی
وہ انصاف کا قلم وہ جگرا کدھر گیا
سکھ ہندو عیسائی مسلم سب ہی تھے مگر
ایک لڑکی ڈھونڈتی پھری بندہ جدھر گیا
ڈھول کی تھاپ پر سب ناچتے رہے
خاموش ہوا ڈھول تو میلہ اجڑ گیا
جاتا تھا اس گلی وہ رستہ کدھر گیا
میری کتاب کا وہ صفحہ کدھر گیا
پھول کے ہار گلیوں کے گجرے سے بن گئے
جس کا باغ تھا وہ مالی کدھر گیا
وہ شخص لکھ رہا تھا پانی پے ایک نام
ایسی پڑی کہر کہ پانی ٹھہر گیا
یہ زمیں خون سے رنگی گئ کئی بار
عاقلوں ماں کو یہ بتائو
اللہ کدھر گیا
عروج ہرے پتوں پے لکھنے لگی
وہ خوں کی سیاہی
آنسوؤں کا کنارا کدھر گیا

صائمہ عروج

یہ خبر شیئر کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں