0

سیدہ فاطمہ الزہرہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی وفات کے بعد مولا علی نے ان کی وصیت کے مطابق دوسری شادی کی ۔ حسن حسین زینب ابھی چھوٹے تھے ۔ آپ نے سیدنا عقیل کو رشتہ دیکھنے کے لئیے کہا تو کلبسی بنو قلاب کے قبیلے کا انتخاب ہوا ۔ سیدنا علی کی خواہش تھی کہ کوئی ایسی خاتون ہو جو شجاعت سخاوت اور ایثار کی

سیدہ فاطمہ الزہرہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی وفات کے بعد مولا علی نے ان کی وصیت کے مطابق دوسری شادی کی ۔ حسن حسین زینب ابھی چھوٹے تھے ۔ آپ نے سیدنا عقیل کو رشتہ دیکھنے کے لئیے کہا تو کلبسی بنو قلاب کے قبیلے کا انتخاب ہوا ۔ سیدنا علی کی خواہش تھی کہ کوئی ایسی خاتون ہو جو شجاعت سخاوت اور ایثار کی خصوصیات سے مالا مال ہو ۔ بنو قلاب کی خاتون فاطمہ بنت حزم کے گھر رشتہ بھیجا تو سردار حزم اپنی بیوی کے پاس گئے اور پوچھا کہ سیدنا علی کا بیٹی فاطمہ کے لئیے رشتہ آیا ہے کیا آپ نے اپنی بیٹی کی ایسی تربیت کی ہے جو نبی کے خاندان میں بیاہی جا سکے ۔ رشتہ قبول ہوتا یے تو فاطمہ بنت حزم( سیدہ ام البنین) سیدنا علی کے گھر جاتی ہیں تو سیدنا حسن حسین اور فاطمہ کو گلے لگا لیتی ہیں۔ سیدنا علی سے درخواست کرتی ہیں کہ ان بچوں کے سامنے آپ مجھے کچھی فاطمہ مت کہئیے گا انہیں اس سے ان کی ماں یاد آ جائے گی ۔ میں اس گھر میں ان کی ماں بن کر نہیں آئی بلکہ کنیز بن کر آئی ہوں۔ میرا یہ مقام نہیں کہ ان کی ماں کی جگہ لے سکوں ۔ اس کے بعد آپ نے انہیں بیٹا نہیں کہا بلکہ ہمیشہ مولا کہتی رہیں۔ ان کے چار بیٹے ہوئے اس لئیے انہیں ام البنین بھی کہتے مطلب بیٹوں کی ماں ۔ اپنے بیٹوں کو ہمیشہ حسن حسین علی کی صرف اطاعت کا حکم دیا ۔ ادب سکھایا اور کہا جو وہ کہیں بس حکم بجا لانا ہے بحث نہیں کرنی۔ یہ اہل بیت ہیں ہم ان کے نوکر ہیں۔

چار بیٹوں میں عباس ابن علی ، عبداللہ ابن علی ، جعفر ابن علی اور عثمان ابن علی تھے ۔ سیدنا عباس علیہ السلام لشکر حسین کے سپہ سالار بھی رہے شجاعت میں یہ ایک مقام رکھتے تھے دونوں ہاتھ سے تلوار چلاتے تھے ۔ جنگ صفین میں سیدنا علی نے ان کو بھیجا تو محمد بن حنفیہ کہتے کہ مولا آپ صرف عباس کو کیوں آگے بھیجتے ہیں تو سیدنا عباس کہنے لگے حسن حسین میرے ابا کی آنکھیں ہیں اور میں ان کا بازو اور بازو ہمیشہ آنکھوں کی حفاظت کرتے ہیں ( حالانکہ عمر میں حسن و حسین سے چھوٹے تھے ) مطلب کہ یہ سوال بھی نہیں بنتا ، ماں کی تربیت ہر مقام پر جھلکتی تھی ۔

واقعہ کربلا میں جب ایک ایک کر کے لشکر حسین کے سپاہی شہید ہوتے گئے تو سیدنا عباس نے مولا حسین سے درخواست کی کہ مجھے جانے دیں۔ سیدنا حسین ان سے تلواریں لے لیتے ہیں کہ بس عباس تم پانی لے آو ۔ آپ پانی لینے جاتے ہیں تو یزیدی لشکر ان پر حملہ کر دیتا ہے دونوں بازو کاٹ دئیے جاتے ہیں

یہ خبر شیئر کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں