غزل
کاش گلشن میں یاس ہی نہ رہے
کوئی بلبل اداس ہی نہ رہے
دیکھ کے جن کو دل دھڑک اٹھے
وہ محبت شناس ہی نہ رہے
اس قدر ضبط زندگی کر لے
لب ہوں خشک اور پیاس ہی نہ رہے
جا چلا جا تو اتنی دور کہ پھر
ترے آنے کی آس ہی نہ رہے
ہم کتابوں میں دفن ہوں ایسے
سوکھے پھولوں میں باس ہی نہ رہے
تجھ کو رسمی ہی اب تو ملنا ہے
خاص لمحات خاص ہی نہ رہے
موسمی پھول اتنے دیکھے ہیں
مجھ کو موسم بھی راس ہی نہ رہے
شاعرہ ، شمسیلہ سعید ، لاہور