0

موچی کے بیٹے کی سیکرٹریٹ میں بطور سیکشن آفیسر تعیناتی* یہ آج سے کم وبیش ایک عشرہ قبل کی بات ہے کہ سیکرٹریٹ میں سیکشن آفیسر کی تقرری کے لئے پبلک سروس کمیشن نے امتحانات کا انعقاد کیا ۔ بڑی تعداد میں لوگ اس پوسٹ کے لئے امتحان میں شامل ہوئے ۔تحریری امتحانات میں کامیابی کے بعد اگلا مرحلہ انٹرویوز کا تھا جس میں طے

موچی کے بیٹے کی سیکرٹریٹ میں بطور سیکشن آفیسر تعیناتی*
یہ آج سے کم وبیش ایک عشرہ قبل کی بات ہے کہ سیکرٹریٹ میں سیکشن آفیسر کی تقرری کے لئے پبلک سروس کمیشن نے امتحانات کا انعقاد کیا ۔ بڑی تعداد میں لوگ اس پوسٹ کے لئے امتحان میں شامل ہوئے ۔تحریری امتحانات میں کامیابی کے بعد اگلا مرحلہ انٹرویوز کا تھا جس میں طے شدہ ضوابط کے مطابق پبلک سروس کمیشن کے تمام ممبران کی موجودگی ضروری تھی ۔
انٹرویو کی تاریخ کا اعلان کر دیاگیا تھا اور مقررہ وقت پر پبلک سروس کمیشن کے تمام ممبران اپنی سیٹوں پر براجمان تھے ۔ایسے میں کتنے ہی امیدوار جو مضبوط خاندانی اور سیاسی پس منظر رکھتے تھے ان کی سلیکٹ ہو جانے کی امیدیں زیادہ تھیں۔ جس پہلے امیدوار کو انٹرویو کے لئے بلایا گیا اس نے تحریری امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کر رکھی تھی لیکن اس کو سلیکشن کی کوئی امید نہیں تھی کہ اس کے پاس کوئی سفارش نہیں تھی ۔
خلاف معمول پبلک سروس کمیشن کے ایک معزز ممبر نے اپنے باقی ساتھیوں سے درخواست کی کہ اس سےسوالات کا آغاز مجھے کرنے دیا جائے جو کہ متفقہ طور پر منظور کر لی گئی ۔
پہلا سوال جو اس امیدوار سے کیا گیا وہ یہ تھا کہ آپ کے والد صاحب کیا کرتے ہیں اور اس کا سادہ سا جواب کہ میرے والد ایک موچی ہیں ۔
دوسرا سوال کہ آپ اپنی زندگی کا ناقابل فراموش واقعہ بیان کریں جس کا جواب تھوڑا تفصیل سے بیان کیا کہ ہمارے کالج میں انٹر کالج تقریری مقابلہ تھا جس میں مختلف کالجز سے امیدوار اپنی تقریری صلاحیت کا لوہا منوانے کے لئے منتظر تھے ۔تقاریر کا سلسلہ جاری تھا کہ میرے کچھ دوستوں نے مذاق کے طور پر میرا نام بھی بھجوا دیا اور پکارے جانے پر مجھے اس حال میں اسٹیج پر پہنچا دیا کہ میرے کمزور جوتے جو کئی مرتبہ کی مرمت کے بعد ناکارہ ہوگئے تھے اور اسی دن ناقابلِ استعمال ہو گئے تھے ,میں ننگے پاؤں اسٹیج پر پہنچ گیا ڈائس کے پیچھے اپنے ننگے پاؤں چھپا کر تقریر شروع کر دی۔
تمام تقاریر کے اختتام پر وہیں پہ نتیجے کا اعلان اور انعامات کی تقسیم کی تقریب بھی منعقد کی گئی جو پہلے مرحلے سے بھی زیادہ مشکل تھا ۔
معزز ججز نے مجھے اس مقابلے کا فاتح قرار دیا تھا اور میں اپنی غربت پر پردہ ڈالنے کے لئے بھاگنے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا ۔جونہی میں نے وہاں سے کھسکنے کی کوشش کی میرے دوستوں نے مجھے پکڑ لیا اور میں ننگے پاؤں اپنا انعام حاصل کرنے کے لیے اسٹیج کی طرف گامزن تھا اور میری آنکھوں میں بیک وقت خوشی اور غم کے آنسو تھے ۔غم اس بات کا تھا کہ آج میری غربت بے پردہ ہو گئی تھی اور خوشی اس بات کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف اگر غربت دی ہے تو دوسری طرف دل ودماغ کی ان قوتوں سے بھی نوازا ہے ۔
اس جواب نے تمام ممبران کو ہلا کر رکھ دیا اور سب کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے ۔پبلک سروس کمیشن کے انٹرویو کے دوران عموماً کسی بھی امید وار کی سلیکشن کا اعلان نہیں کیا جاتا لیکن اس غیر معمولی صلاحیتوں والے نوجوان سے انٹرویو کرنے والے ممبر نے اس سے دو وعدے لیکر اس کی تقرری کا اعلان کر دیا ۔
پہلا وعدہ کہ جس طرح آپ آج بغیر سفارش کے میرٹ پر تعینات ہوئے ہیں آپ بھی اپنی پوری سروس کے دوران میرٹ کی عملداری کو یقینی بنائیں گے
دوسرا کہ اپنے دفتر کے اندر سگریٹ نوشی نہیں کریں گے ۔
دونوں وعدوں کے اقرار کے بعد اس امید وار کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ۔ کہ اس دور میں ایسا کونسا پبلک سروس کمیشن کا ممبر تھا جس نے ہر طرف سفارشوں کے دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے اس تقرری کو میرٹ کیمطابق یقینی بنایا۔ یہ کوئی اور نہیں جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے نو منتخب امیر جناب ڈاکٹر محمد مشتاق تھے۔

ڈاکٹر مشتاق صاحب سے حالیہ ملاقات کے دوران یہ واقعہ بنفسِ نفیس سنا۔
تحریر: انجنیئر محمد فاخر اقبال

یہ خبر شیئر کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں