اے باد صبا ملے جو فرصت تو کہنا میرے یار سے۔
ھے آج بھی انتظار تیرا “دسمبر” کی سرد راتوں میں۔
دل عاشقی میں کیے تھے جووعدے آپ نے۔
منتظر ہوں آج بھی تیرے کیے ہوۓ وعدؤں کا۔
کہ لوٹ آؤں گا “دسمبر” کی سرد راتوں میں۔
کہ لوٹ آؤ تم کبھی مجھے اداس دیکھ کر”دسمبر” کی سرد راتوں میں۔
ہیں کسی کو آج بھی انتظار تیرا۔کہ تیرے لوٹ آنے کی اک آس باقی ہے۔
مانا کہ تاخیر مجھ سے بھی ہو گئی اسے آپنانے میں۔ لیکن جلد باز وہ بھی بہت نکلا گھر بسانے میں۔
اسی ہوئی کیا خطا مجھ سے جو دل سے بھلا دیا تم نے۔
آپ خود ہی تو کہتے تھےکہ تم میری دینا ہو۔
اوروں کی خوشی کےلیے پھر کیوں آپنی دینا کو بھلا دیا اوروں کے لیے۔
یوں بھی کوئی کرتا ہے۔بھلا جیتے جی آپنی دینا میں۔
ہوتا میرا یار تو نہ دیتا مجھے “دھوکہ”۔۔مجھ کو رولانے کےلیے نہ ہوتا “رقیب” کی صف میں کھڑا۔
روز یاد کرتا ہوں”دسمبر”کی سرد راتوں میں۔ نجانے کیوں دل مطمئن ہے میرا آج بھی۔
کہ لوٹ آۓ گا جانے والا آخر ایک دن۔
مجھ سے بچھڑ کے جانے والا “دسمبر” کی سرد راتوں میں۔
”
“اوروں سے کہا تم نے اوروں سے سنا تم نے۔
کاش کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا۔
جی تو چاہتا تھا کہ تیری سادگی پے لکھوں کوئی غزل۔
لیکن افسوس کہ الفاظ مل نہ سکے تیرے معیار کے مجھے۔
تو جہاں بھی رہیے جس کے بھی سنگ رہیے ۔تو خوش رہیے تو آباد رہیے صدا ہے یہ میرے کی دعا۔
تیری زندگی میں نہ آۓکبھی کوئی دکھ۔تو ہنستا رہیے تو مسکراتا رہیے صدا۔۔۔
کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے۔
کہ تیرا نصاب بدلتا ھے۔موسموں کی طرح۔۔۔۔۔