108

Surat No 16 : سورة النحل – Ayat No 92. 93 تمہاری حالت اس عورت کی سی نہ ہو جائے جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ۔ 90 تم اپنی قسموں کو آپس کے معاملات میں مکر و فریب کا ہتھیار بناتے ہو تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ کر

Surat No 16 : سورة النحل – Ayat No 92. 93

تمہاری حالت اس عورت کی سی نہ ہو جائے جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ۔ 90 تم اپنی قسموں کو آپس کے معاملات میں مکر و فریب کا ہتھیار بناتے ہو تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ کر فائدے حاصل کرے حالانکہ اللہ اس عہد و پیمان کے ذریعے سے تم کو آزمائش میں ڈالتا ہے 91 ، اور ضرور وہ قیامت کے روز تمہارے تمام اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا ۔ 92 اگر اللہ کی مشیت یہ ہوتی ﴿کہ تم میں کوئی اختلاف نہ ہو﴾ تو وہ تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا ، 93 مگر وہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈالتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے ، 94 اور ضرور تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس ہوکر رہے گے ۔

تفسیر ۔۔۔۔ تفہیم القرآن

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :90
یہاں علی الترتیب تین قسم کے معاہدوں کو ان کی اہمیت کے لحاظ سے الگ الگ بیان کر کے ان کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے ۔ ایک ، وہ عہد جو انسان نے خدا کے ساتھ باندھا ہو ، اور یہ اپنی اہمیت میں سب سے بڑھ کر ہے ۔ دوسرا ، وہ عہد جو ایک انسان یا گروہ نے دوسرے انسان یا گروہ سے باندھا ہو اور اس پر اللہ کی قسم کھائی ہو ، یا کسی نہ کسی طور پر اللہ کا نام لے کر اپنے قول کی پختگی کا یقین دلایا ہو ۔ یہ دوسرے درجے کی اہمیت رکھتا ہے ۔ تیسرا ، وہ عہد و پیمان جو اللہ کا نام لیے بغیر کیا گیا ہو ۔ اس کی اہمیت اوپر کی دو قسموں کے بعد ہے ۔ لیکن پابندی ان سب کی ضروری ہے اور خلاف ورزی ان میں سے کسی کی بھی روا نہیں ہے ۔

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :91
یہاں خصوصیت کے ساتھ عہد شکنی کی اس برترین قسم پر ملامت کی گئی ہے جو دنیا میں سب سے بڑھ کر موجب فساد ہوتی ہے اور جسے بڑے بڑے اونچے درجے کے لوگ بھی کار ثواب سمجھ کر کرتے اور اپنی قوم سے داد پاتے ہیں ۔ قوموں اور گروہوں کی سیاسی ، معاشی اور مذہبی کشمکش میں یہ آئے دن ہوتا رہتا ہے کہ ایک قوم کا لیڈر ایک وقت میں دوسری قوم سے ایک معاہدہ کرتا ہے اور دوسرے وقت میں محض اپنے قومی مفاد کی خاطر یا تو اسے علانیہ توڑ دیتا ہے یا درپردہ اس کی خلاف ورزی کر کے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے ۔ یہ حرکتیں ایسے ایسے لوگ تک کر گزرتے ہیں جو اپنی ذانی زندگی میں بڑے راستباز ہوتے ہیں ۔ اور ان حرکتوں پر صرف یہی نہیں کہ ان کی پوری قوم میں سے ملامت کی کوئی آواز نہیں اٹھتی ، بلکہ ہر طرف سے ان کی پیٹھ ٹھونکی جاتی ہے اور اس طرح کی چالبازیوں کو ڈپلومیسی کا کمال سمجھا جاتا ہے ۔ اللہ تعالی اس پر متنبہ فرماتا ہے کہ ہر معاہدہ دراصل معاہدہ کرنے والے شخص اور قوم کے اخلاق و دیانت کی آزمائش ہے ، اور جو لوگ اس آزمائش میں ناکام ہوں گے وہ اللہ کی عدالت میں مؤاخذہ سے نہ بچ سکیں گے ۔

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :92
یعنی یہ فیصلہ تو قیامت ہی کے روز ہوگا کہ جن اختلافات کی بنا پر تمہارے درمیان کشمکش برپا ہے ، ان میں برسر حق کون ہے اور برسر باطل کون ۔ لیکن بہرحال ، خواہ کوئی سراسر حق پر ہی کیوں نہ ہو ، اور اس کا حریف بالکل گمراہ اور باطل پرست ہی کیوں نہ ہو ، اس کے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے حریف کے مقابلے میں عہد شکنی اور کذب و افترا اور مکر و فریب کے ہتھیار استعمال کرے ۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو قیامت کے روز اللہ کے امتحان میں ناکام ثابت ہوگا ، کیونکہ حق پرستی صرف نظریے اور مقصد ہی میں صداقت کا مطالبہ نہیں کرتی ، طریق کار اور ذرائع میں بھی صداقت ہی چاہتی ہے ۔ یہ بات خصوصیت کے ساتھ ان مذہبی گروہوں کی تنبیہ کے لیے فرمائی جا رہی ہے جو ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ ہم چونکہ خدا کے طرف دار ہیں اور ہمارا فریق مقابل خدا کا باغی ہے اس لیے ہمیں حق پہنچتا ہے کہ اسے جس طریقے سے بھی ممکن ، ہو زک پہنچائیں ۔ ہم پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ خدا کے باغیوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں بھی صداقت ، امانت اور وفائے عہد کا لحاظ رکھیں ۔ ٹھیک یہی بات تھی جو عرب کے یہودی کہا کرتے تھے کہ لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمّیِّیْنَ سَبِیْلٌ ۔ یعنی مشرکین عرب کے معاملے میں ہم پر کوئی پابندی نہیں ہے ، ان سے ہر طرح کی خیانت کی جا سکتی ہے ، جس چال اور تدبیر سے بھی خدا کے پیاروں کا بھلا ہو اور کافروں کو زک پہنچے وہ بالکل روا ہے ، اس پر کوئی مؤاخذہ نہ ہوگا ۔سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :93
یہ پچھلے مضمون کی مزید توضیح ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اپنے آپ کو اللہ کا طرف دار سمجھ کر بھلے اور برے ہر طریقے سے اپنے مذہب کو ( جسے وہ خدائی مذہب سمجھ رہا ہے ) فروغ دینے اور دوسرے مذاہب کو مٹا دینے کی کوشش کرتا ہے ، تو اس کی یہ حرکت سراسر اللہ تعالی کے منشاء کے خلاف ہے ۔ کیونکہ اگر اللہ کا منشاء واقعی یہ ہوتا کہ انسان سے مذہبی اختلاف کا اختیار چھین لیا جائے اور چاروناچار سارے انسانوں کو ایک ہی مذہب کا پیرو بنا کر چھوڑا جائے تو اس کے لیے اللہ تعالی کو اپنے نام نہاد “” طرف داروں “” کی اور ان کے ذلیل ہتھکنڈوں سے مدد لینے کی کوئی حاجت نہ تھی ۔ یہ کام تو وہ خود اپنی تخلیقی طاقت سے کر سکتا تھا ۔ وہ سب کو مومن و فرماں بردار پیدا کر دیتا اور کفر و معصیت کی طاقت چھین لیتا ۔ پھر کسی کی مجال تھی کہ ایمان و طاعت کی راہ سے بال برابر بھی جنبش کرسکتا ؟

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :94
یعنی انسان کو اختیار و انتخاب کی آزادی اللہ نے خود ہی دی ہے ، اس لیے انسانوں کی راہیں دنیا میں مختلف ہیں ۔ کوئی گمراہی کی طرف جانا چاہتا ہے اور اللہ اس کے لیے گمراہی کے اسباب ہموار کر دیتا ہے ، اور کوئی راہ راست کا طالب ہوتا ہے اور اللہ اس کی ہدایت کا انتظام فرما دیتا ہے ۔

یہ خبر شیئر کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں