163

اک لاپرواہ سی لڑکی تھی” ازقلم ،شاعرہ نور الصباح شھر ٹنڈو جام، اپنی ہی دنیا میں گم رہتی تھی، ہواؤں سے باتیں کرتی تھی، فکر کسی کی بھی نہ کرتی تھی، وہ ایک لاپرواہ سی لڑکی تھی، سہیلیاں اس کی دیوانی تھیں

“اک لاپرواہ سی لڑکی تھی”
ازقلم ،شاعرہ نور الصباح
شھر ٹنڈو جام،
اپنی ہی دنیا میں گم رہتی تھی،
ہواؤں سے باتیں کرتی تھی،
فکر کسی کی بھی نہ کرتی تھی،
وہ ایک لاپرواہ سی لڑکی تھی،
سہیلیاں اس کی دیوانی تھیں
استادوں سے دوستیاں وہ کرتی تھیں،
آسمان کی وہ دیوانی تھی،
وہ اک لاپرواہ سی لڑکی تھی،
چاند کو پانے کی خواہش وہ کرتی تھی،
ستاروں کو توڑنے کے خواب دیکھتی تھی،
وہ اک لاپرواہ سی لڑکی تھی،
زمانے کو کچھہ نہ سمجھتی تھی،
اپنوں سے بہت محبت رکھتی تھی،
ماں سے عشق تھا اسے،
مگر کبھی اظہار محبت نہ کرتی تھی،
وہ ایک لاپرواہ سی لڑکی تھی،
گزرتا گیا گزرنا تھا یہ وقت بھی،
زندگی بدلی اک وقت میں اس کی،
الوداع ہوئی لاڈو بابا کے گھر سی،
رخصتی کی گھڑیاں آن پہنچی تھی،
زندگی اس کی بھی بدلی تھی،
وہ اک لاپرواہ سی لڑکی تھی،
جو کبھی کسی پرواہ نہ کرتی تھی،
آج اسے سب کی پرواہ کرنی تھی،
سب کا خیال رکھنا ہے بیٹی یہ الفاظ ماں نے تھمائے اسے،
ماں باپ کا نام رکھنا ہے بیٹی یہ الفاظ بابا نے اسے تھمائے،
آسمان گرنے لگا تھا اس پہ،
وہ اک لاپرواہ سی لڑکی تھی،
چھوڑ دیا تھا اس نے خود کو خود میں،
تنہا کر دیا تھا خوابوں کو سپنوں میں،
ماں باپ کی باتوں کا بھرم تھا رکھنا اسے،
اس کی محبت کا مان تھا رکھنا اسے،
وہ اک لاپرواہ سی لڑکی تھی،
چلتے چلتے وقت گیا وقت کا یہی تو کام ہے چلنا،
اس کی محبت کا امتحان آن پہنچا،
اس کی ماں ہوتی بہت بیمار ،
وہ رہ نہ پاتی تھی اپنی ماں کے بغیر،
محبت بہت تھی ماں سے مگر اظھار محبت نہ کیا کبھی،
کبھی نہ ماں کو گلے لگایا کبھی نہ ماں کو پیار سنایا،
وہ اک لاپرواہ سی لڑکی تھی،
پھر اچانک سے اس کی زندگی بدلی،
اور اک دن دیا بجھہ گیا ممتا کا،
وہ ٹوٹ گئی وہ بکھر گئی،
وہ زندہ رہ کر بھی مر گئی،
وہ اک لاپرواہ سی لڑکی تھی،

یہ خبر شیئر کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں