130

*سلسلہ سائنس وٹیکنالوجی* *شوگر کیا ہے ؟* جو غذا ہم کھاتے ہیں ، اس میں جسم کو توانائی دینے کے لیے تین چیزیں ہوتی ہیں ۔ 👈 پروٹین 👈فیٹ 👈 کاربوہائیڈریٹ جو کاربوہائیڈریٹ ہے ،یہ ہمارے جسم کے لیے توانائی کا بنیادی سورس ہے ، اور انہی کاربوہائیڈریٹس میں سے ایک اہم ترین کاربوہائیڈریٹ گلوکوز ہوتا ہے

*سلسلہ سائنس وٹیکنالوجی*

*شوگر کیا ہے ؟*

جو غذا ہم کھاتے ہیں ، اس میں جسم کو توانائی دینے کے لیے تین چیزیں ہوتی ہیں ۔
👈 پروٹین 👈فیٹ 👈 کاربوہائیڈریٹ
جو کاربوہائیڈریٹ ہے ،یہ ہمارے جسم کے لیے توانائی کا بنیادی سورس ہے ، اور انہی کاربوہائیڈریٹس میں سے ایک اہم ترین کاربوہائیڈریٹ گلوکوز ہوتا ہے۔ بہت سے کاربوہائیڈریٹس ایسے ہوتے ہیں جو گلوکوز سے مل کر بنے ہوتے ہیں اور نظام انہضام میں جاکر گلوکوز میں تبدیل ہوجاتے ہیں یا پھر ٹوٹ کر گلوکوز بناتے ہیں۔ ہمارے نظام انہضام کا کام کھانے کو چھوٹے اور بنیادی حصوں میں توڑنا ہوتا ہے، اور پھر یہ کھانے کے حصے (پروٹین، فیٹ، کاربوہائیڈریٹ) نظام انہضام سے خون میں شامل ہوجاتے ہیں اور خون سے جسم کے خلیوں میں چلے جاتے ہیں، خلیوں میں جاکر ان پر بہت سے کیمکل ریکشنز ہوتے ہیں جس سے خلیوں کو توانائی ملتی ہے۔
اب گلوکوز کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے ، یہ بھی نظام انہضام سے خون میں شامل ہوتا ہے اور خون سے خلیوں کے اندر جاتا ہے اور پھر خلیے اس سے توانائی بناتے ہیں۔ مگر گلوکوز کے ساتھ ایک مسلہ ہے، یہ خلیوں میں بغیر انسولین کے داخل نہیں ہوسکتا، یعنی کہ یوں سمجھ لیں کہ گلوکوز کے لیے خلیوں کے دروازے تب تک نہیں کھلیں گے جب تک کہ ان دروازوں میں انسولین کی چابی نہیں لگے گی، گویا گلوکوز کو خون سے خلیوں کے اندر بھیجنے کے لیے انسولین کی ضرورت ہوتی ہے، گلوکوز تب ہی خلیے کے اندر جائے گا جب خلیے پر موجود receptors میں انسولین لگے گی ، انسولین receptors کے اوپر اسی طرح لگے گی جس طرح تالے میں چابی لگتی ہے اور دروازہ کھل جاتا ہے، ویسے ہی جب خلیے کے receptors کے ساتھ انسولین لگے گی تو گلوکوز کے لیے خلیے کے دروازے کھل جائیں گے۔
انسولین کیا ہے ؟ انسولین ایک پروٹین ہارمون ہے جو کہ لبلبہ میں پیدا ہوتا ہے ، لبلبہ کے خاص خلیے (islets of langerhans) اس انسولین کو پیدا کرتے ہیں اور خون میں چھوٹ دیتے ہیں، خون کے راستے یہ انسولین خلیوں تک جاتی ہے اور وہاں جاکر گلوکوز کے لیے راستہ کھلواتی ہے۔ جب خون میں گلوکوز کا لیول بڑھ جاتا ہے تو جب وہ خون لبلبہ کے پاس پہنچتا ہے تو لبلبہ خون میں گلوکوز کا زیادہ لیول محسوس کرتا ہے اور انسولین کی پیداوار اور خروج بڑھا دتیا ہے۔ یہاں تک بات کلیر ہوئی ؟ (اگر نہیں ہوئی تو تحریر ایک بار پھر سے پڑھیں)
اب شوگر کی مرض میں کیا ہوتا ؟ شوگر کی مرض میں خون میں گلوکوز کا لیول بڑھ جاتا ہے ، اس صورت حال کو hyperglycemia کہتے ہیں۔ جب ہم کھانا کھاتے ہیں خاص کر کوئی میٹھی چیز تو ہمارے خون میں وقتی طور پر گلوکوز کا لیول بڑھ جاتا ہے، مگر شوگر کے مریض میں یہ صورتحال وقتی نہیں رہتی بلکہ دیرپا بن جاتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ شوگر کے مرض میں خون میں گلوکوز کا لیول بڑھا کیوں ؟ تو اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں، اور یہ دو وجوہات ہی اگے شوگر کی دو بنیادی اقسام بھی بناتی ہیں
پہلی وجہ/ قسم 👇
ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ لبلبہ ڈیمج ہوگیا ہے، خراب ہوگیا ہے۔ لبلبہ کے وہ خلیے جو انسولین بنا رہے تھے وہ اپنا کام نہیں کر رہے جس سے انسولین نہیں بن رہی، اور گلوکوز خون سے خلیوں میں نہیں جارہا جس سے خون میں گلوکوز کا لیول بڑھ گیا۔ مگر لبلبہ کے ان خلیوں کو مسلہ کیا ہوا۔ یہاں کردار آتا ہے ہمارے امیون سسٹم کا، ہمارے امیون سسٹم کا کام جسم میں داخل ہونے والے کیمیکلز اور جراثیم سے لڑنا ہوتا ہے، مگر کبھی کبھی ہمارا امیون سسٹم جسم کے اپنے خلیوں کو ہی جسم کا دشمن سمجھ لیتا ہے اور ان کو ختم کرنے لگ جاتا ہے، اس صورت حال کو آٹو امیون رسپانس کہتے ہیں، اور اس آٹو امیون رسپانس کا نشانہ اگر لبلبہ کے انسولین بنانے والے خلیے ہوں تو شوگر کا مرض سامنے آتا ہے۔
شوگر کی اس قسم کو ہم diabetes mellitus type 1 کہتے ہیں اور یہ شوگر کی وہ قسم ہے جس میں شوگر کے مریض کو جسم کے باہر سے انسولین لگائی جاتی ہے، کیونکہ لبلبہ انسولین نہیں بنا رہا، اس لیے شوگر کی اس قسم کو insulin dependent diabetes mellitus بھی کہتے ہیں۔

دوسری وجہ/ قسم 👇
شوگر کی دوسری قسم میں لبلبہ تو ٹھیک کام کر رہا ہوتا ہے اور انسولین پیدا کررہا ہوتا ہے مگر خلیوں پر جو receptors موجود ہوتے ہیں (جن پر اکر انسولین نے جڑنا ہوتا ہے) وہ اپنا کام چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔ کیونکہ زیادہ میٹھا کھانے کی وجہ سے ، زیادہ گلوکوز لینے کی وجہ سے بار بار اور زیادہ تعداد میں انسولین ان receptors کے ساتھ جڑتی ہے جس سے ان receptors میں insulin resistance آجاتا ہے۔ سو اب مسلہ لبلبے کا نہیں بلکہ خلیوں کا ہوجاتا ہے۔ اور شوگر کہ اس مریض کو انسولین نہیں لگائی جاتی کیونکہ انسولین تو پہلے ہی نارمل طریقے سے بن رہی ہے، مسلہ تو receptors کا ہے۔
سو یہ تھی شوگر کی بنیادی اقسام۔ لیکن ایک سوال تو اٹھتا ہے کہ گلوکوز کا لیول خون میں زیادہ ہوجانے سے مسائل کون سے سامنے آتے ہیں ؟ سو ایک تو یہ مسلئہ ہے کہ خلیوں کو گلوکوز کی کمی ہے جو کہ توانائی کا ذریعہ ہے پھر خلیے فیٹ کو استعمال کر کے توانائی لیتے ہیں (جو کہ سب خلیے نہیں کرسکتے) دوسرا مسلہ یہ ہے کہ خون تو پورے جسم میں گردش کرتا ہے اور باریک باریک رگوں کے ذریعے جسم کے چھوٹے چھوٹے اور حساس ٹیشوز تک جاتا ہے، خون میں جب گلوکوز زیادہ ہوجاتا ہے تو گلوکوز ان باریک شریانوں میں پھنستا ہے جس سے ان شریانوں میں سے خون صحیح سے گزر نہیں پاتا اور ان حساس اعضاء کو نیوٹریشن ٹھیک طریقے سے ملتی نہیں جس سے کہ وہ کمزور ہونا شروع ہوجاتے ہیں، جیسے کہ آنکھیں (کہا جاتا ہے کہ شوگر آنکھوں پر پڑ گئی) اسی طرح گردے خون سے فاسد مادوں کو پیشاب کے ذریعے نکال دیتے ہیں، ان گردوں کی باریک شریانوں میں بھی گلوکوز پھنستا ہے، اور گلوکوز پیشاب کے ساتھ باہر بھی آتا ہے، یہی وجہ ہے کہ شوگر کے مریض کے پیشاب پر چیونٹیاں اتی ہیں۔ اسی طرح جوڑ بھی نیوٹریشن کی کمی کی وجہ سے درد کرتے ہیں۔ پھر شوگر کے ساتھ ساتھ اور مسائل بھی آجاتے ہیں جیسے کہ دل کے امراض، آنکھوں کے امراض، گردوں کے امرض، اس کے علاؤہ امیون سسٹم بھی کمزور ہوجاتا ہے۔
شوگر سے بچنے کا اور اسکو کنٹرول میں رکھنے کا سب سے اچھا حل اپنا لائف سٹائل اچھا رکھنا ہے، اچھی اور صحت مند غذا اور ورزش زندگی کا حصہ ہونی چاہیے۔۔۔۔

شوگر_کی_مزید_اقسام

ٹائپ 1 اور ٹائپ 2 کے علاؤہ، شوگر کی مزید اقسام ہیں
Gestational_diabetes
پریگننٹ عورتوں میں عام انسان کی نسبت بلڈ شوگر لیول زیادہ ہوتا ہے، مگر کبھی کبھی یہ لیول زیادہ بڑھ جاتا ہے، جسے gestational diabetes کہتے ہیں۔ اس صورت حال میں غذا اور علاج کے ذریعے اس لیول کو نارمل پریگنینسی بلڈ گلوکوز لیول تک لایا جاتا ہے۔

Pre_diabetes
اس صورت حال میں انسان کا بلڈ گلوکوز لیول نارمل سے زیادہ ہوتا ہے، مگر اتنا نہیں کہ diabetes کی تشخیص ہوسکے۔
اسکے علاؤہ ایک عام بات ہمیں سننے کو ملتی ہے کہ شوگر اور ٹینشن کا تعلق ہے، وہ کیا تعلق اسکے بارے میں بھی بات کرتے ہیں دراصل
ٹینشن، ایمرجنسی، تناؤ، پریشانی وغیرہ کی کیفیت میں ہمارا جسم اپنے آپ کو اس ٹینشن کی صورت سے نپٹنے کے لیے تیار کرتا ہے۔ اس کیفیت میں ہمارے جسم میں adrenaline اور cortisol جیسے ہارمون خارج ہوتے ہیں۔ یہ ہارمون جسم میں مختلف تبدیلیاں لاتے ہیں جیسے کہ دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے، سانس تیز ہوجاتی ہے، آنکھیں (آنکھوں کا pupil) زیادہ کھل جاتی ہیں۔ ان سب تبدیلیوں کا مقصد جسم کو ایمرجنسی کی صورت کے لیے تیار کرنا ہوتا ہے، (اسے fight or flight رسپانس کہتے ہیں)۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ہارمون (خاص کر cortisol) ہمارے خون میں گلوکوز کا لیول بھی بڑھا دیتا ہے، تاکہ خلیوں کو زیادہ خوراک اور توانائی مل سکے۔ مگر ایک شوگر کے مریض کے پاس خون میں موجود اس گلوکوز کو خلیوں میں شامل کرنے کی قابلیت پہلے ہی کم ہوتی ہے سو خون میں گلوکوز کا لیول بڑھ جانا مزید نقصان دہ ثابت ہوتا ہے اور اس طرح ٹینشن کی حالت میں شوگر مزید بڑھ جاتی ہے۔۔۔
واضح رہے کہ شوگر کو میڈیکل کی زبان میں diabetes mellitus کہتے ہیں۔

یہ خبر شیئر کریں
کیٹاگری میں : صحت

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں