167

رولا دینے والا کالم ۔ پورب سے پچھم تک سرد ہواوں کا راج تھا۔۔ سرما رت کے سارے پارے گر گئے تھے۔۔۔۔ 14 جنوری کی شام تند و تیز دھند کی لہروں کے تپھیروں میں اور سردناک ہو گئ تھی ۔

رولا دینے والا کالم ۔

پورب سے پچھم تک سرد ہواوں کا راج تھا۔۔ سرما رت کے سارے پارے گر گئے تھے۔۔۔۔ 14 جنوری کی شام تند و تیز دھند کی لہروں کے تپھیروں میں اور سردناک ہو گئ تھی ۔

تنہائیوں بیماریوں سے جنگ ہارتی جھونپڑی میں پڑی اک بڑھیا آخری سانسیں لے رہی تھیں۔ ایڑیاں رگڑیں۔ تڑپیں ۔دانتوں پہ دانت بجے ۔زبان اٹکی ۔زبان سے لفظ۔۔۔ طاہر ۔۔۔نکلا اور پھر جان طاہر لاہوتی کے ہاں پیش کر دی۔

مکاں کا اکیلا مکییں لا مکاں کی طرف رخصت ہوا۔ اناللہ کی صدائیں بلند ہوئیں۔ بستی کی چند عورتیں آگے بڑھیں ۔آنکھوں پہ ہاتھ رکھا ۔بڑھیا کا جسم مزید ٹھنڈا ہو گیا۔

طاہر اس بد نصیب بڑھیا کا اکیلا بیٹا تھا۔ طاہر چند سال کا تھا کہ اس کا بابا فوت ہو گیا تھا ۔

بڑھیا نے طاہر کے بچپن سے لڑکپن کو بڑے جتن سے پالا تھا۔ سینے پہ الزام سجاتی ۔۔حالات سے بل کھاتی ۔بیٹے کی شادی کے ارمانوں تک جا پہنچی تھی۔ ۔۔ ڈھولک۔۔ تاشے۔۔ باجے ۔۔سے آنکھوں میں آئِی چمک زندگی بھر کا صلہ تھا۔

طاہر بیوی کا ہو کے رہ گیا۔۔ماں کو دھکے دیے۔گالیاں دی اور ہمیشہ کے لیے دور بیوی کے میکے آباد ہو گیا۔ وقت سے پہلے اللہ جوائی کے چہرے پہ جھریاں ۔۔۔بالوں میں سفیدی ۔۔اور کمریا میں خم پڑھ گیا۔۔ ۔تڑپتی سسکتی۔۔روز مرتی بالآخر اللہ جوائی مر گئی ۔

بڑھیا کی لاش پہ کوئی نہیں رویا تھا ۔۔۔۔ میرے اندر سے چیخیں سراپا سوال تھیں کہ

کیا بیوی کے لیے مائیں طشت میں رکھ کے عزرائیل کے سپرد کر دینی چاہیں۔۔۔۔ کیا مائیں بیٹے اس لیے پالتیں ہیں کہ ماں کو موت کی آغوش میں لے جائیں۔۔۔۔ کیا ممتا کے شریر کے پاتال تک گھائل کرنا بیوی کے کہنے پہ صیح ہوتا ہے۔۔ نہیں نہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔

قارئین کرام یہ خیالاتی لاش تب تک میں دفن نہیں کروں گا جب تک ہم تہیہ ناں کر لیں۔ کہ ماں کائنات کی حسین چیز ہے ۔۔۔ماں قدرت کا تحفہ ہے۔اور ماں محبتوں کی عظیم درسگاہ ۔

ماں کی قدر کرو ۔۔۔۔ نہیں کرو گے تو کل تمہارے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔۔ ماں کے قدموں میں جنت ہوتی ہے۔

تحریر۔۔۔۔عمران مہدی ۔۔۔۔سماجیات ۔۔۔۔بزم قلم ۔۔۔۔بزم محسن

یہ خبر شیئر کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں