130

ماما مجھے پہلے اس کی تصویر دکھائیں پھر میں فیصلہ کروں گی ہاں یا ناں کا ماں نے نمل کی طرف دیکھا اچھا ہم تمہارے لیئے کیا کوئی اچھا لڑکا نہیں دیکھیں گے نمل غصے سے بولی ماما بس لڑکا دیکھنا ہے مجھے

ماما مجھے پہلے اس کی تصویر دکھائیں پھر میں فیصلہ کروں گی ہاں یا ناں کا
ماں نے نمل کی طرف دیکھا اچھا ہم تمہارے لیئے کیا کوئی اچھا لڑکا نہیں دیکھیں گے
نمل غصے سے بولی ماما بس لڑکا دیکھنا ہے مجھے
اس کی تصاویر منگوا لیں
یا لڑکے کو خود بلوا لیں
ماں نے ڈانٹا پاگل شرم نہیں آتی چل دفعہ ہو جا اپنے کمرے میں
باپ بھی آگیا کیوں ڈانٹ رہی ہو میری بچی ہو
نمل بابا کے پاس لے گی ہو گئی جا کر بابا مجھے لڑکا دیکھنا ہے
باپ نے مسکرا کر کہا ہاں بیٹی تمہاری رضامندی سے ہی کریں گے شادی
کل میں اس کی تصویر منگوا لوں گا
لڑکے کا اپنا ہوٹل ہے پڑھا لکھا ہے پیارا ہے
لیکن نکل کو دیکھنا تھا
تصویر آ گئی دیکھا لڑکا تو پیارا ہے
نمل نے ہاں کر دی بس دنوں میں ہی نمل کی شادی ہو گئی
نمل کا ہمسفر شاداب
ارینج میرج تھی نہ کبھی ملاقات ہوئی کبھی نہ کبھی کوئی بات
کبھی ایک دوسرے کو ملے بھی نہیں
یہ کیسا پاک رشتہ ہوتا ہے نا نکاح دو اجنبی ایک جان ہو جاتے ہیں
جو کبھی زندگی میں ملے نہ ہوں وہ پل بھر میں ایک دوسرے کی روح بن جاتے ہیں
پہلی رات تھی شاداب کمرے میں آیا ہاتھ میں آئس کریم پکڑی ہوئی
نمل نظریں جھکا کر بیٹھی تھی
آئس کریم تو نمل کی فیورٹ تھی شاداب نے سلام کیا
پاس بیٹھ گیا
شاداب تھوڑا سا شرارتی بھی تھا
آئس کریم کھاتے ہوئے بولا جتنے پیسے شادی پہ خرچ کیئے اتنے کی کاش میں آئس کریم کھا لیتا
نمل کا گھونگٹ اٹھا کر بولا آپ کھائیں گی
پہلے تو نمل شرماتے ہوئے انکار کر دیا پھر شاداب نے پیار سے کہا کھا لیں پیار بڑھے گا
نمل کو اآئیس کریم دی اور خود چینج کرنے لگا
نمل ساری آئس کریم کھا گئی
شاداب نے جب پوچھا آئس کریم۔کہاں ہے تو نکل مسکرانے لگی وہ تو میں کھا گئی
شاداب بھی مسکرانے لگا بہت کنجوس ہو آپ تو
پہلے کہتی نہیں کھانی اور اب دیکھو ساری کی ساری کھا گئی ہائے میرے پچاس روپے کی تھی
شاداب کو اتنا تو سمجھ گئی تھی پہلی ہی رات
کے شاداب دل کا بہت اچھا ہے
رات بھر مجںت بھری باتیں ہوتی رہی
زندگی اپنے اصل سفر کی طرف گامزن ہو گئی تھی
نمل کے بھائی کی شادی تھی
نمل 4 مہنے کی حاملہ بھی تھی
نمل نے شاداب سے کہا مجھے بھائی کی شادی پہ جانا ہے
شاداب نے نمل کے پاس بیٹھ کر بولا نمل ڈاکٹر نے آپ کو سفر کرنے سے منع کیا ہے اسلیئے میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا
میں نہیں اجازت دے سکتا شادی پہ جانے کی
نمل کو بہت غصہ آیا
شاداب آپ پاگل ہو گئے ہو میرے بھائی کی شادی ہے
اور آپ کہہ رہے نہیں جانا
آپ مجھے کار پہ آرام سے چھوڑ کر آ جائیں بس
شاداب نے نمل کا ہاتھ پکڑا محبت سے پھر سمجھانے لگا نکل کیوں فضول کی ضد کرتی ہو ڈاکٹر نے سفر کرنے سے منع کیا ہے تو میں نہیں جانے دے سکتا تم کو
تم لاپرواہ ہو جاتی ہو اور میں تم کو کسی کے بھروسے نہیں چھوڑ سکتا اتنا کہہ کر شاداب کمرے سے باہر چلا گیا
نکل رونے لگی
نمل نے اپنی ماں کو فون کیا شاداب منع کر رہا ہے شادی پہ آنے کے لیئے
ماں نے سمجھایا بیٹا اگر وہ کہہ رہا تو نہ او
لیکن نکل کی بھابھی اور بھائی ضد کرنے لگے
کیوں نہیں آنے دے رہا شاداب ہماری بہن کو
وہ رات کو آئے شاداب بھی گھر تھا کہنے لگے کہ مہندی ہے 3 دن کی تو بات ہے ہم۔نمل کو لینے آئے ہیں
شاداب نے نمل کی طرف دیکھا
نمل میں نے کیا کہا تھا تم۔سے
نمل نے نظریں جھکا لیں
کمرے میں چلی گئی اٹھ کر شاداب کو غصہ تو بہت تھا
لیکن صبر کر لیا
پانی ہزار روپے جیب سے نکالے نمل کو دیئے یہ کو کچھ پیسے رکھو باقی اور چاہیئے ہوئے تو لے لینا میں او گا کل
نمل بہت خوش تھی
شاداب نے سینے سے لگایا نمل کو اہنا خیال رکھنا نمل
نمل شادی پہ چلی گئی
مہندی کی رات کزنز بھی آئی ہوئی تھی ڈانس بھی کیا کافی انجوائے کیا
بارات والے دن جب بھائی کی بارات لڑکی والوں کے گھر پہنچی تو بارش ہو رہی تھی
گلی میں کافی کیچڑ تھا
نمل کا پاوں پھسلا گر گئی
گرتے ہی اس کے پیٹ میں درد ہونے لگا نمل زور زور سے رونے لگی
جلدی سے نمل کو ہسپتال لے گئے
نمل درد سے چلا رہی تھی
شاداب کو کال کی نمل کے بارے میں بتایا
شاداب گھبرا گیا
وہ جلدی سے ہسپتال پہنچا
ڈاکٹرز نمل کو ایمرجنسی وارڈ میں لے گئے تھے
شاداب بہت پریشان تھا
دل کی دھڑکنیں بے قابو تھیں زبان پہ ذکر خدا تھا
باقی سب لوگ شادی کی خوشیوں میں مگن تھے لیکن یہاں شاداب پریشان کھڑا تھا
کچھ دیر بعد ڈاکٹرز کمرے سےباہر آئے
انھوں نے سوری کرتے ہوئے بتایا آپ کا بچہ ضائع ہو چکا ہے
شاداب بے جان سا ہو کر کرسی پہ بیٹھ گیا
یا میرے اللہ
ہمت کی جلدی سے وارڈ میں گیا نمل رو رہی تھی
شاداب کو دیکھ کر منہ موڑ لیا
شاداب پاس بیٹھ گیا
سر پہ ہاتھ پھیرنے لگا اچھا چل چپ کر میری سوہنی
رو نہ بس اللہ کی مرضی تھی
نمل پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
شاداب مجھے معاف کر دیں
مجھ سے غلطی ہو گئی شاداب نے آنسو سے بھیگی ہوئی پلکوں خو چوم لیا
ارے بس بس میری جان روتے نہیں ہیں بس اللہ کی رضا تھی یہ چپ کر میری جان
نمل خود کو گنہگار سمجھ رہی تھی اپنے بچے اور شاداب کا
شاداب سمجھانے لگا
نمل کا سر اپنی گود میں رکھ لیا چپ ہو جا میری سوہنی
رو نا اب
دیکھ میں تیرے پاس ہوں نا ۔نمل کو لے کر گھر چلا گیا
شادی ختم ہوئی سب گھر آ گئے
نمل کا حال پوچھنے
نمل خود پہ الزام دے رہی تھی مجھے روکا تھا شاداب نے ماں لیکن میں ضد کرتی رہی شادی پہ جانا ہے
اگر میں نے ان کی بات مان لی ہوتی تو آج شاہد میں اہنا بچہ نہ گنواتی
شاداب سمجھ رہا تھا نمل دل ہی دل میں خود کو قصوروار ٹھہراتی ہے
شاداب پیار سے سمجھاتا نمل کو ارے پاگل اویں خود کو پریشان نہ کر
اللہ کی رضا تھی نا اللہ نے چاہا تو ہمیں اولاد دے گا نا
نمل شاداب کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی شاداب آپ اتنے اچھے ہیں
مجھے ڈانٹا نہیں آپ نے کچھ کہا نہیں
شاداب نے لمبی سانس لی
مسکرا کر بولا جب تم۔نے میری بات ماننی ہی نہیں تو نمل کچھ کہنے کا فائدہ
نمل سمجھ رہی تھی شاداب کا خاموش غصہ
ایک سال بعد پھر اللہ نے ان کو بیٹا عطا کیا
بہت خوش تھے شاداب بانہوں میں اٹھا کر چومنے لگا اپنے بیٹے کو
نمل بیڈ پہ لیٹی شاداب کی آنکھوں میں بیٹے کی محبت میں نکلتے آنسو دیکھ رہی تھی
زندگی میں اچھے برے دن آتے ہیں لیکن عقل مند وہی ہوتا ہے جو خود کو حالات میں ڈھال لیتا ہے
شاداب کے دو بھائی جو شاداب سے امیر تھے
ان دونوں بھائیوں کا اہنا اچھا خاصہ بزنس تھا
لیکن شاداب کا چھوٹا سا ہوٹل تھا جس سے گزارہ ہو رہا تھا
نمل نے ضد کی شاداب بچے کو گرمی لگتی ہے
اسلیئے روتا ہے مجھے کمرےمیں اے سی لگوا کر دو
شاداب نے سر پہ ہاتھ رکھا ارے نمل پاگل ہو گئی ہو کیا
میرے پاس نہیں ہیں پیسے اے سی کے لیئے
نمل نے ضد کی مجھے اے سی چاہئے بس کمرے میں
بیٹے کو اپنے سینے پہ لیٹا کر کھیل رہا تھا بیٹے کے ساتھ شاداب
ادھر نمل نس اے سی لگوانے کئ ضد کیئے بیٹھی تھی
شاداب نے نمل کا ہاتھ پکڑا اپنے قریب کیا
نمل پتا نہیں کیوں اتنی ضدی ہو لگوا دوں گا اسے سی
یہ لو سو گیا ہے میرا شہزادہ اس کو لٹا لو
دو سال بعد اللہ نے ایک بیٹی بھی عطا کی ان کو
وہ بہت خوش تھے
ہر اچھی بری خواہش پوری کرتا تھا شاداب
لیکن پھر بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پہ ان میں جھگڑا رہتا ہی تھا
بیٹا 4 سال کا ہو گیا تھا
بیٹی چھوٹی تھی شاداب کا ہوٹل کا کام اچھا نہیں چل رہا تھا
شاداب کچھ پریشان تھا
گھر آیا دیکھا بیٹے نے اس کا لیپ ٹاپ توڑ دیا تھا
نمل موبائل پہ لگی ہوئی تھی
شاداب نے دیکھا لیپ ٹاپ بکھرا ہو ہال میں پڑا ہے
شاداب چلا کر بولا نمل یہ کیا ہے
نمل نے دیکھا یہ آپ کے لاڈلے نے توڑا ہے
شاداب غصے میں پہلے ی تھا نمل کو گالی دے کر بولا تمہارا دماغ کام نہیں کرتا ہے اس میں میرا سارا ڈیٹا تھا
تم پاگل ہو کیا ۔جاو کھانا لے کر او اٹھ جاو
نمل غصے میں بولی شاداب میں نوکرانی نہیں ہوں
سارا دن بچوں کو سنبھالوں اور پھر تم گالی تو مجھے
سارا دن اتنا کام کروں اور قدر اتنی سی ہے گالی دے رہے ہو
نمل کھانا لیکر آئی بینگن بنے ہوئے تھے
شاداب نے بینگن دیکھے چلا کر بولا تمہارا دماغ خراب ہے
تم۔کو کتنی بار بکواس کی ہے میں نے بینگن نہیں کھاتا میں
شاداب نے کھانا اٹھا کر ہال میں پھینک دیا
اٹھ کر باہر چلا گیا
اتنے میں بیٹے نے شیشے کا گلاس توڑ دیا جو ہاتھ پہ لگ گیا
کافی خون بہنے لگا تھا ہاتھ سے
نمل نے بیٹھے کو ایک دو تھپڑ لگا دیئے
بہت تنگ آ گئی ہوں میں تم باپ بیٹے سے
بیٹے کو اٹھا کر کمرے میں لے گئی رو رہی تھی ساتھ غصے میں بول رہی تھی
5 سال ہو گئے اس انسان کے ساتھ میری قدر ہی نہیں ہے
بیٹے کے زخم پہ مرہم لگانے لگی
اتنے میں بیٹی بھوک سے رونے لگی
بیٹی کو گود میں اٹھایا اس انسان کی ایسی حرکتیں رہی تو گزارہ مشکل ہو جائے گا
رات بھر شاداب گھر نہ آیا
نمل نے بھی فون کر کے نہ پوچھا
نکل نے اپنی ماں کو بتایا شاداب آجکل نہ خرچہ دے رہا ہے نہ اچھے سے بات کرتا ہے گالیاں دیتا ہے
ماں نے بتایا اچھا ہم۔کرتے ہیں بات اس سے
شاداب کو محسوس ہوا اس نے اچھا نہیں کیا نمل کے ساتھ
آج گھر جا کر نمل کو سوری کروں گا
گھر آیا دیکھا
گھر میں نمل کے امی ابو چچا سب آ کر بیٹھے ہوئے تھے
شاداب نے نمل کی طرف دیکھا
نمل خاموش رہی
سلام ہوا
اس کے بعد بات شروع ہو گئی
ماں چلا کر بولی کیوں بیٹا تم خرچہ نہیں دیتے ہو نمل کو
کیوں گالیاں دیتے ہو
شاداب کو بہت غصہ آیا گھر کی بات تھی ہم دونوں حل کر لیئے مسائل کو
شاداب نے غصے سے کہا اس کو سب کچھ دیتا ہوں یہ بس تماشے لگانا چاہتی ہے
نمل کو بھی غصہ تھا وہ بھی غصے میں بولی کیا دیتے ہو
مہینے کا دس ہزار دیتے ہو جس کا دودھ بھی پورا نہیں ہوتا
احسان کرتے ہو مجھ پہ تمہارے بچوں کا خرچہ کرتی ہوں
بات اتنی بڑھ گئی کے سب کے سامنے شاداب نے نمل کو تھپڑ مار دیا
نمل کی ماں کو برداشت نہ ہوا وہ اپنی بیٹی کو ساتھ لے گئے
دونوں بچے بھی ساتھ لے گئے
نمل رونے لگی شاداب نے بھی نہ روکا انھیں
نمل ناراض ہو کر چلی گئی
نمل کو تھپڑ زیادہ زور کا لگا تھا نشان بن گئا تھا چہرے پہ
ماں بھی رونے لگی نہ جانے پہلے بھی ظلم کرتا ہو گا میری بیٹی پہ کمینہ انسان
شاداب پہلے اپنے ہوٹل کی وجہ سے پریشان تھا کام نہ ہونے کی وجہ
اور اب یہ پریشانی بن گئی
نمل میکے میں تھی شاداب یہاں تھا گھر میں پریشان تھا
حالات اتنے خراب ہوئے شاداب کو اہنا ہوٹل بیچنا پڑا
دو مہینے گزر گئے دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ نہ کیا
دونوں آنا میں تھے غرور میں تھے
شاداب کہتا خود گئی ہے خود واپس آئے نمل کی اکڑ تھی منانے آئے گا تو جاوں گئ
دن گزرتے گئے 8 مہینے گزر گئے کوئی رابطہ نہ ہوا
شاداب کے ایک دوست نے شاداب کو کہا دبئی جانا ہے تو بتاو میرے پاس ویزہ ہے حالات کافی برے تھے
شاداب دبئی چلا گیا
نمبر بند ہو گیا
ایک سال گزر گیا تھا دونوں نے کوئی رابطہ نہ کیا ایک دوسرے کے ساتھ
نمل بھائی سے خرچ لیتی بچوں کے دودھ کا یا دوسرا ضروریات کا
آخر بھائی کب تک دے سکتے تھے خرچہ ان کے بھی اپنے بچے تھے
کبھی نمل کے بچے کوئی نقصان کر دیتے کوئی چیز توڑ دیتے
تو نمل کئ بھابھیان ہزاروں باتیں کرتی طعنے دیتی تھیں
نمل چپ کر کے سن لیتی
کیا کرتی آخر
کسی کو کچھ بتاتی بھی نہ تھی
عید کے دن تھے نمل نے بھائی سے کہا پیسے دو بچوں کو شاپنگ کروانی ہے
بھابھی پاس سے بولی بہن صاف سی بات ہے ہمارے پاس فالتو کے پیسے نہیں ہیں
اس انسان کے ساتھ گزارہ نہیں تو طلاق لیکر کسی دوسرے سے نکاح کرو اور جاو یہاں سے
نمل اس دن بہت روئی تھی اسے احساس ہونے لگا تھا شاداب تو میرے سر کا تاج ہے
شاداب دبئی میں بچوں کو یاد کر کے بہت روتا تھا
نمل پاگل بات کچھ تھی نہیں اور تم نے یہ کیا کر دیا

ادھر نمل کے بھائی نے نمل کے لیئے ایک آدمی دیکھا جس کی بیوی مر چکی تجی چار بچے تھے اس کے
بھائی نے نمل سے کہا بس شاداب سے طلاق لو اور اس شخص سے شادی کر کے گھر بسا لو اپنا
نمل کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں آنسو سے
جلدی سے موبائل نکالا شاداب کو فون ملایا نمبر بند آ رہا تھا
نمل رونے لگی مجھے شاداب کے پاس ہی جانا ہے
مجھے کوئی شادی نہیں کرنی کسی سے
شاداب کا دل تڑپا اس نے سوچا میری نمل تو معصوم سی ہے اویں تھوڑے سے غصے پہ ناراض ہو جاتی ہے
میں معافی مانگ لوں گا اپنی جان سے
وہ ٹکٹ کروا کر پاکستان آ گیا
نمل رو رو کر اللہ سے اپنے گناہ اپنی غلطی کی معافی مانگ رہی تھی
اے اللہ مجھے معاف کر دے مجھے میرا شاداب واپس کر دے
رات بھر روتی رہی
صبح وہ بیٹے کو ناشتہ کروا رہی تھی کے
دروازے پہ دستک ہوئی
بھابھی نے دروازہ کھولا سامنے دیکھا شاداب کھڑا تھا
نمل کی نظر پڑی شاداب پہ
ہاتھ سے دودھ کا کپ چھوٹ گیا
ننگے پاوں دوڑ لگا دی
دوڑتے ہوئے جا کر شاداب کے سینے سے جا لگی
چیخ چیخ کر رونے لگی
شاداب بہت پیار کرتی ہوں تم سے
شاداب کے پاوں پکڑ لیئے معاف کر دو شاداب مجھے
شاداب نے نمل کا منہ چوما آنسو صاف کیئے
تم بھی معاف کر دو میری جان میں نے غصے میں زیادہ بول دیا تھا تم کو
بچوں کو سینے سے لگایا شاداب نے پیار کرنے لگا
نمل بھائی اور بھابھی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فخر سے بولی میرا سر تاج میرا ہمسفر ہے میرے پاس
آپ لوگوں کی مہربانی
وہ شاداب کے ساتھ گھر واپس آ گئی
دونوں خوشی سے سب شکوے بھلا کر جینے لگے
لیکن وہ اتنا بتا گئے جذبات میں جدا ہو جانا بہت آسان ہے لیکن جدا ہو کر جینا بہت مشکل ہے
جو درد ایک ہمسفر محسوس کر سکتا ہے وہ کوئی اور نہیں سمجھ سکتا
طلاق لے کر زندگی برباد نہ کریں سب وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں ہاں آگر نہیں بدلتا تو ہمسفر
اگر کوئی ناراض ہے یا انا میں ہے تو جاو منا لو راضی کر لو ایک دوسرے کو اس سے پہلے کے دیر ہو جائے
Copied

یہ خبر شیئر کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں